سندھ پہلا صوبہ ہو گاجہاں صحافیوں کے تحفظ کا بل جلد لایا جائے گا، سعید غنی

528

کراچی(اسٹا ف رپورٹر)وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی کے مسائل میں دلچسپی نہیں لیتی،وزیر اعظم تو بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے، وہ وزیر اعلی کو کسی خط کا جواب بھی نہیں دیتے۔سندھ پہلا صوبہ ہو گا جہاں صحافیوں کے تحفظ کا بل لایا جائے گا۔ وہ کونسل آف پاکستان نیوزپیپرایڈیٹرز کے تحت سی پی این ای سیکریٹریٹ میں منعقدہ میٹ دی ایڈیٹرز پروگرام سے خطاب کر رہے تھے،

سعید غنی نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ، وزیراعظم کو خطوط میں ان کا کوئی حال احوال نہیں پوچھتے بلکہ ان خطوں میں مسائل کی نشاندہی اور آئیڈیاز دیئے جاتے ہیں۔ وفاق کی جانب سے ایک سو باسٹھ ارب دینے کا اعلان محض اعلان ہی رہا اس پر کوئی عمل در آمد نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ کراچی میں اخباری ہاکروں کے اسٹالز ہٹانے کا سبب سپریم کورٹ کے احکامات تھے کہ انکروچمنٹ کیخلاف کارروائی کی جائے تاہم یہ اخباری اسٹالز کا مسئلہ جلد حل کر لیا جائے گا،

انھوں نے کہا کہ نیب کے خوف کے باعث سرکاری افسران بھی ٹھیک سے کام نہیں کرپارہے۔میڈیا سے متعلق قوانین جو بھی بنیں سی پی این ای اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے بنیں گے۔ایک سوال پر سعید غنی نے کہا کہ اینٹی ریبیز کی ویکسین کی کمی ضرور ہے لیکن نایاب نہیں اور یہ کمی پورے ملک میں ہے، کتے بھی صرف سندھ میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ہیں، بھارت سے در آمدات رکی ہوئی تھیں لیکن اب ویکسین آنا شروع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے قلت ختم ہوگئی ہے،

انہوں نے کہا کہ ڈینگی کے کیسز سب سے زیادہ اسلام آباد اور لاہور میں سامنے آئے ہیں۔ سندھ نے ڈینگی سے بچاو کے لیے اقدامات کر لیے تھے۔ وزیراطلاعات و محنت سندھ نے کہا کہ کراچی کو تباہ ایم کیو ایم نے کروایا،کراچی میں انتخابات میں دھاندلی ہوتی رہی،فاٹا تک کے نتائج آجاتے ہیں لیکن کراچی کے نتائج نہیں آتے،اب کراچی کے مسائل کا حل یہ ہے کہ فری اور فیئر الیکشن منعقد کرائے جائیں پھر لوگ چاہے جس کو منتخب کریں،

انہوں نے کہا کہ 2001 میں بااختیار نظام آیا جو مشرف نے دیا2005-2010 تک مصطفی کمال ناظم رہے اس وقت کہاں کتنا پیسہ لگا کوئی پوچھنے والا نہیں، جتنا پیسہ لگا اس سے پانچ گنا زیادہ کام ہو سکتا تھا۔ سعید غنی نے کہا کہ 2005 سے قبضہ اور چائنہ کٹنگ شروع ہوئی جو کراچی کی تباہی کا سبب بنی اور اب اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے آرڈرز پر تجاوزات کے خاتمے کا کام ٹھیک سے نہیں کیا گیا، جہاں کرنا تھا نہیں ہوا اورجہاں ہوا وہاں زیادہ ہو ہے،

انہوں نے کہا کہ جب اخبارات سندھ کے ہیں تو ریٹ بھی ہمیں طے کرنا چاہیے، وفاق کیوں کرے۔ سعیدغنی نے سندھ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے کہا کہ تھر کول جیسا منصوبہ کوئی حکومت بتادے کہ کسی اور صوبے نے ایسا بنایا ہو۔ ایس آئی یو ٹی، انڈس ہسپتال، گمبٹ میں انسٹی ٹیوٹ جا کے دیکھیں،ہیلتھ سیکٹر میں سندھ گورنمنٹ نے تمام صوبوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ کام کیا،

سندھ میں سندھ ریونیو بورڈ اپنا ہدف پورا کر نے میں بے مثال ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ سندھ بینک میں ایک روپے کی کرپشن نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل کے حوالے سے بھی خوف کی فضاء قائم کی گئی جبکہ ایسی صورتحال نہیں ہے،پارٹی نے جو ذمہ داریاں دی ہیں انہیں پورا کرنا میرا فرض ہے،انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل پورے ملک سے مختلف ہیں،

کراچی جتنا بڑا ہے اس کے مسائل بھی اسی طرح بڑے ہیں، کراچی میں جو ماضی گزرا ہے اس کو بھی ذہن میں رکھیں، شہر میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے قتل و غارت گری کروائی گئی،سعید غنی نے کہا کہ میئر کراچی کہتے ہیں، ان کے اختیارات لے لیے، بتائیں کونسا اختیار لیا ہے،انہوں نے کے ایم سی کے اختیارات ضلعی بلدیات میں تقسیم کیے ہیں، لوکل ٹیکس، ڈسپنسریز ضلعی بلدیات کو دی گئیں تاکہ عام لوگوں کو فائدہ ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کے ایم سی سے کچھ نہیں چھینا۔ وزیراطلاعات و محنت سندھ کا کہنا تھا کہ وہ بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے کے حق میں ہیں، اختیارات یونین کونسلز کو ملنے چاہیئں، 2013 کے قانون کو بھی مزید بہتر اور تبدیل کیا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ شہر کراچی میں پانی کا مسئلہ ہے،کے فورمنصوبے میں تبدیلی پیپلز پارٹی کی حکومت آنے سے پہلے کی گئی تھی،

کے فور منصوبہ کو ایف ڈبلیو او دیکھ رہی ہے،اس کی منظوری کے وقت واٹر بورڈ اور دیگر متعلقہ وفاقی اور صوبائی ادارے موجود تھے، سعید غنی نے کہا کہ کے فور میں پاور اسٹیشن شامل ہی نہیں کیا گیا، منصوبے کے لیے صرف25 ارب رکھے گئے، کے فور منصوبے میں کمی پوری کرنے کے لیے کی گئی تبدیلی کی وجہ سے لاگت میں اضافہ ہوا، سعید غنی نے کہا کہ ہم نے کے فور منصوبے کے مکمل آڈٹ کا کہا ہے،

اس پروجیکٹ کے از سر نو جائزے کے لئے نیسپاک کی مدد حاصل کی گئی، نیسپاک کی جانب سے جو خامیاں بتائی گئی ہیں انہیں درست کیا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی،کے پی کے میں حکومت رہی کوئی بتائے کہ تھر کول جیسا منصوبہ کس نے بنایا؟سعید غنی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے تھر کول، ایس آئی یو ٹی اور میڈیکل کالج عوام کو دیا، گمبٹ میں لیور ٹرانسپلانٹ پہلی بار کیا جا رہا ہے،

این آئی سی وی ڈی میں پچاس فیصد لوگ دوسرے صوبے سے آرہے ہیں، یہاں انہیں مفت طبی سہولیات دی جا رہی ہیں، سعید غنی نے کہا کہ ایشین بینک کے تعاون سے 300 ارب کراچی کے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوں گے، مراد علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کو سی پیک میں منصوبے میں شامل کروایا۔ قبل ازیں سی پی این ای سیکریٹریٹ آمد پر جنرل سیکریٹری ڈاکٹر جبار خٹک اور ڈپٹی جنرل سیکریٹری عامر محمود نے انہیں باضابطہ خوش آمدید کہا،

پروگرام کے اختتام پر سی پی این ای عہدیداران نے وزیراطلاعات ومحنت سندھ سعید غنی کو شیلڈ اور اجرک بھی پیش کی۔ میٹ دی ایڈیٹرز پروگرام میں حامد حسین عابدی، طاہر نجمی، غلام نبی چانڈیو، مقصود یوسفی، اعجاز الحق، سعید خاور، عبدالرحمان منگریو، عارف بلوچ، عبدالخالق علی، محمد طاہر، محمد تقی علوی، بشیر احمدمیمن، محمد عرفان، شیر محمد کھاوڑ، سلمان قریشی، عثمان عرب ساٹی، کاشف حسین، قاضی سجاد اکبر، بلال فاروقی، عبدالقیوم خان، محمود عالم خالد، مدثر عالم، محمد رضا شاہ، رفاقت تنولی، عدنان ملک، ناصر خٹک، عامر خٹک، حمیدہ گھانگھرو، بلقیس جہاں، ڈائریکٹر انفارمیشن محکمہ اطلاعات سندھ زینت جہاں اور صدر کراچی پریس کلب امتیاز خان فاران سمیت ایڈیٹرز اور دیگر صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔