نوازشریف کو غور کرنا چا ہیے

558

انکار اثبات میں بدل رہے ہیں۔ سر پر غرور خم ہورہے ہیں۔ سر کشی زنجیر ہورہی ہے۔ بے شک میرا ربّ ہر شے پر قادر ہے:
میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں ایمان وی توں
میڈا جسم وی توں میڈی روح وی توں
میڈا قلب وی توں جند جان وی توں
میڈی وحشت جوش جنون وی توں
میڈا گریہ آہ وفغاں وی توں
جے یار فرید قبول کرے
سرکار وی توں سلطان وی توں
نواز شریف کسی نہ کسی صورت گزشتہ تیس چالیس برسوں سے اقتدارکے ایوانوں میں ہیں۔ دولت ان کے گھر کی باندی رہی تو اقتدار کی خوشبوئیں ان کے محلات میں روشنی بکھیرتی رہیں۔ کون گمان کرسکتا تھا کہ وہ یوں لا چار ہوجائیں گے کہ پتھروں سے نمی مانگیں گے۔
صدام حسین عراق کا وہ حکمران تھا جو 48محلات، تین ہزار قیمتی سوٹوں، ڈھائی سو جوڑی جوتوں، دس ہزار پر فیومز کی بوتلوں اور گیارہ سو قیمتی گاڑیوں کا مالک تھا۔ اس نے اپنی مونچھیں رنگنے کے لیے بارہ ماہرین کی ٹیم رکھی ہوئی تھی۔ اس کے سگار ہوانا سے آتے تھے۔ فرانس کی کمپنیاں اس کے لیے خصوصی طور پر مشروبات تیار کرتی تھیں۔ اس کے کپڑوں کا ناپ لینے کے لیے درزی لندن سے آتا تھا۔ اس کے کپڑے دھونے کے لیے بغداد میں رائیل واشنگ سینٹر بنایا گیا تھا۔ جس کے دھوبی کو اعزازی کرنل کا رینک دیا گیا تھا۔ اس کے کسی بھی سوٹ کی باری دو تین سال کے بعد آتی تھی۔ اقتدار کے خاتمے اور گرفتاری کے بعد ایک وقت وہ آیا جب وہ عدالت سے درخواست کررہا تھا کہ مجھے قید کے دوران کپڑے دھونے اور سگریٹ پینے کی اجازت دی جائے۔ میرے پاس پچھلے دوسال سے جوتوں کا صرف ایک جوڑا ہے جو کب کا پھٹ چکا ہے۔
وہ منظر بڑا عبرت ناک تھا جب صدام حسین جیل میں کپڑے دھونے کے بعد نچوڑ رہا تھا۔ اس کی وہ تصویر دنیا کے بیش تر اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ بنی گالا کے حکمرانوں کو اشد ضرورت ہے کہ وہ اس تصویر کو اپنے بیڈروم میں چسپاں کریں۔ صرف بنی گالا کے حکمرانوں ہی کو نہیں رائے ونڈوں، بلاول ہائوسوں، ڈکٹیٹروں، بیورو کریٹوں، وزیروں، وکیلوں اور لوٹوں کی خواب گاہوں میں بھی اس تصویر کو آویزاں ہونا چاہیے۔ جو آج خدا کے لہجے میں بول رہے ہیں، ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وقت ہر متکبر حکمران کی رعونت پر خاک ڈالنا فرض سمجھتا ہے۔ اقتدار سے زیادہ ناپائدار چیز آج تک دریافت نہیں ہوسکی۔ اقتدار کے ایوانوں سے ایک دن سبھی کو باہر آنا ہے۔ اپنے قدموں پر چل کر یا دوسروں کے کاندھوں پر۔ آج جو کتے کل کے حکمرانوں پر بھونک رہے ہیں کل آج کے حکمرانوں پر بھی بھونک رہے ہوں گے۔
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دارہیں ذاتی مکان تھوڑی ہیں
نواز شریف کی بغرض علاج بیرون ملک روانگی کو عمران خان اپنی شکست باورکررہے ہیں۔ وہ دل برداشتہ ہیں۔ اتنے کہ اِدھر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا اُدھر وہ دو دن کی رخصت پر چلے گئے۔ خود عمران خان اپنے ذرائع سے تصدیق کے بعد اعتراف کر چکے تھے کہ نواز شریف واقعی بیمار ہیں اور شدید بیمار ہیں۔ موت اور زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اس کے باوجود ان کی حکومت نے نواز شریف کی بیرون ملک روانگی میں ہر ممکن طریقے سے رکاوٹیں کھڑی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ قید کے دوران حکومت نے نواز شریف کو نفسیاتی اور جسمانی طور پر توڑنے کے لیے ہر حربہ آزمایا۔ ان کی بیماری سے غفلت برتی گئی۔ رپورٹس پر توجہ نہ دی گئی۔ جیل سے نکال کر نیب کی تحویل میں دے دیا گیا۔ ان کے ذاتی معالج اور گھر والوں کو ان سے ملنے نہیں دیا گیا۔ جب نواز شریف موت کے دہانے پر پہنچ گئے تو ان کی موت کے سیاسی مضمرات نے حکومت کو بدحواس کردیا۔ یکایک وزیراعظم کی انسانی ہمدردی بھی جاگ اٹھی۔ تین مرتبہ نواز شریف کے بیرون ملک روانگی کے ٹکٹ جاری ہوگئے، ان کے خاندان کو شیڈول سے مطلع کردیا گیا، عدالتی کلئیرنس مل گئی لیکن پھر نفرت کی جبلتیں غالب آتی چلی گئیں۔ انسانی ہمدردی کی لہر جو نجانے کہاں سے گھومتی گھامتی اقتدار کے ایوانوں سے آٹکرائی تھی چند لمحوں سے زیادہ عمران خان کے دل میں نہ سما سکی۔ نواز شریف کی بیچارگی کو عمران خان اپنی فتح باور کرارہے تھے۔ نفرت کی جبلت ہمدردی کے جذبے پر غالب آئی تو عداوت، بیر، دشمنی اور بغض عمران خان پر غالب آتے چلے گئے۔ فواد چودھری، فروغ نسیم، فردوس عاشق اعوان جیسے لوگ جو حکمرانوں کے اشارہ ابرو کو دیکھ کر رائے کا اظہار کرتے ہیں وہ آگے آئے اور حکومت ذلت کے اندھیروں میں اترتی چلی گئی۔
عمران خان کو یہ خوف لاحق ہے کہ جلا وطنی جس کے ساتھ بیماری کے ہمدردانہ جذبات بھی وابستہ ہوں نواز شریف کی قوت میں بے پناہ اضافہ کردے گی۔ نوازشریف کی چپ نے ان کی حکومت کو ادھ مرا کردیا، ان کے بڑے بڑے دعووں کو تنکوں سے زیادہ بے وقعت بنادیا، اب جب کہ نواز شریف کو حکومت پر حملہ کرنے اور جوابی وار کرنے کی سہولت حاصل ہوگی تو ان کی حکومت اس کی تاب نہ لاسکے گی۔ وہ عوام جنہیں عمران خان نے بے حد ناراض کردیا ہے ان کی نفرتوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ نواز شریف ایک بار پھر عوام میں اور ملکی سیاست میں مرکزیت حاصل کر لیں گے۔ عمران خان کے سرپرست بھی اسی خوف میں مبتلا ہیں۔ تمام تر جبر اور قیدوبند کے باوجود عمران خان نواز شریف سے ایک پیسہ وصول نہیں کرسکے۔ نواز شریف پر بیرون ملک اربوں روپے کی ترسیل کے جو دعوے عمران خان کرتے تھے چئیرمین ایف بی آر شبر زیدی خود اس کی تردید کرچکے ہیں۔ ان کو سزا جس دبائو میں دی گئی جج ارشد ملک خود اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔ نواز شریف کے باب میں عمران خان کے بیانیے کا ایک حرف بھی ثابت نہ ہوسکا۔ نوازشریف کو زیرعتاب رکھ کر عمران خان نے اپنے ورکرز اور خود اپنی تسکین کے لیے ایک علامتی فضا تخلیق کی تھی ان کے بیرون ملک روانگی سے وہ فضا بھی کہیں خلائوں میں کھو کر رہ گئی ہے۔
سنا ہے دوران بیماری دعائیں زیادہ سنی جاتی ہیں۔ بعد ازعلاج نواز شر یف خیریت سے وطن واپس آئیں انہیں پاکستان کے ہزاروں لاکھوں مریضوں کے لیے دعا کرنی چاہیے جو علاج معالجے کی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث سسک سسک کر گھل گھل کر مررہے ہیں۔ کئی عشروں اقتدار میں رہنے کے باوجود نواز شریف نے جن کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس موقع پر کوئی سخت بات کہنا مناسب نہیں لیکن نواز شریف ہر اس مریض کے مجرم ہیں جسے اسپتالوں میں علاج تو درکنار علاج کے لیے اسپتال اور شفا خانے دستیاب نہیں ہیں۔ وہ قیدی جو جیلوں میں گل سڑ کر مرجاتے ہیں جنہیں بیرون ملک تو کجا بیرون جیل بھی علاج دستیاب نہیں نواز شریف ایسے ہر قیدی کے مجرم ہیں۔ نوازشریف آج جن حالوں میں ہیں اس میں اہل بصارت اور بصیرت سب کے لیے عبرت کا سامان ہے۔ ایسا تو نہیں یہ کسی درد کے مارے کی بددعا کا نتیجہ ہو۔ نواز شریف کو غور کرنا چاہیے۔