مولانا ناکام نہیں ہوئے

987

مولانا فضل الرحمن صاحب نے جس طرح سے لاکھوں کے قافلوں کو ملک بھر سے ایک مقررہ تاریخ (31 اکتوبر 2019ء) پر اسلام آباد لا جمع کیا اس پر مولانا کی قیادت اور کارکنوں کے ڈسپلن کی تحسین ہونی چاہیے کہ حکومت سے ناراض لاکھوں مظاہرین نے اسلام آباد تک سفر انتہائی پُرامن انداز میں کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دینی جماعتوں نے دیگر جماعتوں کے مقابلے میں اپنے کارکنوں کی تربیت زیادہ بہتر طور پر کی ہے۔ 27 اکتوبر کو سہراب گوٹھ (کراچی) سے ’’آزادی مارچ‘‘ کے روانہ ہوتے وقت مولانا نے اپنے خطاب میں دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے بنائی جانے والی حکومت کے جعلی وزیراعظم کو ہم تسلیم نہیں کرتے، لہٰذا وزیراعظم عمران خان سے استعفا لیے بغیر واپسی نہیں ہوگی۔ مولانا نے دھرنے سے جتنے بھی خطاب کیے سب میں یہی تاثر دیا گیا کہ وزیراعظم سے ہر حال میں استعفا لیا جائے گا۔ تاہم 13 نومبر کی شب کو دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے اچانک ’’اسلام آباد دھرنا‘‘ ختم کرنے کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی کارکنوں سے کہا گیا کہ وہ واپس اپنے اپنے علاقوں میں جا کر ’’پلان بی‘‘ کے تحت اہم شاہراہوں کو بند کردیں۔ وفادار کارکنوں نے اپنے امیر کے حکم پر لبیک کہا اور پلان بی پر عمل ہونا شروع ہوگیا، تاہم آثار بتاتے ہیں کہ پلان بی بھی اسلام آباد دھرنے کی طرح بہت جلد تحلیل ہوجائے گا۔
وزیراعظم عمران خان سے استعفا لیے بغیر مولانا فضل الرحمن صاحب کے ’’آزادی مارچ‘‘ کی واپسی سے عوام کو سخت مایوسی ہوئی۔ مولانا جن الزامات کے تحت وزیراعظم سے استعفا لینا چاہتے تھے اس سے قوم کی اکثریت کو اتفاق تھا، تاہم مولانا اپنے ارادوں اور ہدف میں کامیاب نہ ہوسکے، مولانا نے ایسا کیوں کیا اور وہ عوام کو مایوس کرنے کے باوجود کس طرح سے ناکام نہیں ہوئے آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
مولانا صاحب جب اپنے ’’آزادی مارچ‘‘ کو لے کر اسلام آباد جارہے تھے تو اُس وقت تقریباً تمام اپوزیشن جماعتیں مولانا کی حمایت کا اعلان کررہی تھیں۔ مولانا صاحب کا خیال تھا کہ جب اپوزیشن جماعتوں کو یہ یقین ہوجائے گا کہ آزادی مارچ کے قافلے چل کھڑے ہوئے ہیں تو ’’دوست‘‘ راستے میں کسی نہ کسی مقام پر ضرور شامل ہوجائیں گے خاص طور پر مولانا کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے کافی اُ میدیں تھیں کیوں کہ ان جماعتوں کی قیادت مولانا کی دوست بھی تھی اور زیر عتاب بھی تاہم توقع کے برعکس سکھر میں مولانا سے ہاتھ ملانے کے لیے بلاول نہیں آیا اور لاہور میں مولانا سے بغلگیر ہونے کے لیے شہباز نہیں پہنچا۔ مولانا نے بوجھل دل کے ساتھ سفر جاری رکھا۔ اسلام آباد پہنچ جانے کے بعد اپوزیشن کے جو رہنما جن میں بلاول اور شہباز بھی شامل تھے مولانا سے ملنے کنٹینر پر آتے رہے، کسی کا کوئی ایک کارکن تک نہیں آیا، تقریروں میں مولانا کا ساتھ دینے اور عمران حکومت کو گرانے کی خوب بھبھکیاں لگاتے اور دھمکیاں دیتے رہے لیکن واپس جانے کے بعد ہر ایک اپنی اپنی پارٹی کا اجلاس بلاتا اور مولانا کے بعض فیصلوں سے اختلاف کی خبر سنادیتے، جس پر مولانا سمجھ گئے کہ میں اپنے ساتھیوں کو لے کر توپوں کے منہ میں چلا جائوں اور اپوزیشن میری قربانیوں پر کھڑے ہو کر گلدستے وصول کرتی رہے ایسا نہیں ہوگا۔ جب مولانا کو یقین ہوگیا کہ آزادی مارچ کی آڑ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیل ہوجانے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں تو مولانا نے بھی اپنے رومال کو دائیں کندھے سے اُٹھا کر بائیں کندھے پر رکھ دیا اور یہ فیصلہ کرلیا کہ ایسا نہیں ہوگا کہ ہم ڈی چوک پر کچلے جائیں اور ہمارے دوست لندن، دبئی چلے جائیں اور پھر وہاں سوپ پیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ واہ مولانا آپ کا بہت بہت شکریہ۔
مولانا صاحب ایک جہاندیدہ سیاستدان ہیں وہ صورت حال بدلنے کے ساتھ خود بھی بدل گئے۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ اسلام آباد پہنچ جانے کے بعد اپوزیشن ان کا بھرپور ساتھ دے گی تو وہ اس طرح سے وزیراعظم عمران خان سے استعفا لینے میں کامیاب ہوجائیں گے تاہم جب انہوں نے دیکھا کہ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا تو ان کے سامنے تین قوتیں تھیں جن میں سے کسی ایک کے ساتھ ہاتھ ملانا ضروری ہوگیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ صلح یا معاہدہ ہونے کا تو قطعاً کوئی امکان نہیں تھا کیوں کہ عمران خان کا جارحانہ اور اُن کے وزرا کا گستاخانہ رویہ بدستور جاری تھا جب کہ اپوزیشن مولانا کو دھوکا دے کر تماشا دیکھ رہی تھی، لہٰذا اپوزیشن سے توقعات یا مزید انتظار کا وقت بھی ختم ہوچکا تھا، اس طرح کی صورت حال میں صرف تیسری قوت (اسٹیبلشمنٹ) ہی کا دروازہ کھلا رہ گیا تھا جن کے ساتھ کوئی باعزت سمجھوتا یا ڈیل کی جاسکتی تھی سو، مولانا نے ایسا ہی کیا۔
مولانا نے دھرنے کے دوران اپنی تقریروں میں بڑی سمجھداری اور احتیاط کے ساتھ اداروں کو پیغام دیتے رہے جس پر ’’آئی ایس پی آر‘‘ نے پہلا بیان جاری کیا جو مولانا کو پسند نہیں آیا اور فوری ردعمل دیا گیا، اس کے بعد کورکمانڈرز کا اجلاس ہوا جس کا بیان بھی کچھ مبہم سا تھا تاہم ایک بعد دوبارہ ’’آئی ایس پی آر‘‘ نے بیان جاری کیا جس میں مولانا کو سینئر سیاستدان کہہ کر مثبت پیغام دیا گیا۔ اس دوران یقینا وہ مشترکہ دوست بھی کام کرتے رہے جو مولانا اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھے جب کہ مولانا کے لیے یہ بات بھی حوصلہ افزا تھی کہ مولانا اور ان کے ساتھیوں کے تندوتیز جملوں کے بعد بھی ’’111 بریگیڈ‘‘ نے کوئی حرکت نہیں کی۔ اس دوران ڈاکٹر طارق جمیل اور وزیراعظم عمران خان کی دوستی نے بھی کام دیکھایا۔ تبلیغی جماعت کے دوبزرگوں نے سپہ سالار سے ملاقات کی، خبر تو یہ تھی کہ ٹرین حادثے میں شہید ہونے والوں کے لیے دعائے مغفرت کی گئی لیکن لگتا یہ ہے کہ اس ملاقات کے دوران ’’آزادی مارچ‘‘ کی بخیر و عافیت واپسی پر بھی اتفاق کرلیا گیا۔
جیسا کہ ہم نے ابتدا میں لکھا ہے کہ استعفے کے بغیر مولانا کی واپسی سے عوام کو مایوسی ضرور ہوئی ہے۔ تاہم اس کے باوجود مولانا کو مکمل طور پر ناکام نہیں کہا جاسکتا اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ مولانا صاحب وزیراعظم عمران خان سے استعفا تو نہ لے سکے لیکن ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے ساتھ دوستی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مولانا جن کو اپنی شکست کا ذمے دار کہہ رہے تھے وہ مولانا کے قابل اعتماد ساتھی بن گئے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ آئندہ انتخابات میں مولانا کی جماعت کے لیے رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جائیں گی اور ممکن ہے کہ ’’نیب‘‘ کا تعاقب بھی روک دیا جائے۔ مولانا اُن کا خاندان اور ساتھی نیب انکوائریوں سے محفوظ رہیں اور مزید یہ کہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ اس سے پہلے جو کام ’’تحریک انصاف‘‘ یا کسی اور کے لیے کررہی تھی آئندہ اس میں جمعیت العلما اسلام (JUI) کو بھی شامل کرلیا جائے کیوں کہ یہ تو ممکن نہیں کہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ اپنے مہرے لانا چھوڑ دے یا یہ کہ انتخابات کے اندر اُس کی ترجیحات اور مداخلت نہ ہو، البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے اور ہوگا کہ ’’مہرے‘‘ بدل لیے جائیں، وقت کے ساتھ مہروں کا بدلنا بھی ایک قومی ضرورت ہوتی ہے جس کو ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ بہتر طور پر سمجھتی ہے۔
مولانا صاحب نے اپنے مذکورہ ’’آزادی مارچ‘‘ کے ذریعے پاکستان کی دیگر دینی اور سیاسی جماعتوں کو بھی متوجہ کیا کہ ان کو تنہا اور اُن کی جماعت کو نظر انداز نہ کیا جائے، جب کہ اسلام دشمن قوتوں کے لیے بھی مولانا کا ’’آزادی مارچ‘‘ کھلا پیغام تھا کہ اگر ہندو، یہود، نصاریٰ اور قادیانیوں کا نیٹ ورک پاکستان کے خلاف سازشوں اور شرارتوں سے باز نہ آیا تو مولانا اتنی طاقت ضرور رکھتے ہیں کہ ان کے ایجنٹوں اور آلہ کاروں کو اسلام آباد کے ایوانوں سے نکال باہر پھینکیں۔
بہرحال فی الحال عمران خان اقتدار موجود ہے وہ آزادی مارچ سمیت سیاسی بحران کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اپوزیشن نے مولانا کا ساتھ نہ دے کر جو غلطی کی اس کا ایک نتیجہ تو نکلے گا کہ اپوزیشن مزید مشکل سے دوچار رہے گی جب کہ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ پر اور بھارت کے ایجنڈے کو تقویت ملی۔ وقت ثابت کرے گا اور تاریخ لکھے گی کہ عمران خان کی ناکام حکومت کو سہارا دینے کا کام مولانا نے نہیں اپوزیشن نے کیا۔