مظلوم فلسطینیوں کی صدا کون سنے گا؟

695

بہت سارے اسلامی ممالک بظاہر اسلامی ملک ہیں لیکن در حقیقت وہ قضیہ فلسطین کی پشت پر خنجر گھونپنے والوں میں سے ہیں وہ بجائے اس کے کہ فلسطینی عوام کی حمایت کریں امریکا اور صہیونی ریاست کے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ اسرائیل کا ظلم خطے میں بڑھتا چلاجارہا ہے۔ مگر افسوس خلیجی ریاستیں اسرائیل سے متعلق نرم گوشہ رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں سے اسرائیلی جارحیت مسلم امہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو آگاہ کررہی ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق اب تک 32 سے زیادہ فلسطینی شہید درجنوںکے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی حکام دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوں نے فلسطین کے متحرک کمانڈر بہاء ابوالعطا کوشہید کردیا ہے۔ فلسطینیوں کے قتل عام کے پیچھے اسرائیلی ایجنڈا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اسرائیلی شدت پسند بیت المقدس میں موجود مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنا چاہتے ہیں اور بھارت کی طرح بتدریج فلسطین زمین پر قبضہ جما کر فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالنا چاہتے ہیں یہ تمام تر جارحانہ اقدامات گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کرنے کی ناکام کوششیں ہیں۔ فلسطین اپنی خاص جغرافیائی محل وقوع، زرخیز زمین، اور یہودیوں و مسلمانوں کی مذہبی یادگاروں کی بنیاد پر تاریخ میں ہمیشہ نشیب و فراز کا حامل رہا ہے جدا مجد سیدنا ابراہیمؑ کی عراق سے سرزمین فلسطین پر ہجرت اور اس کے بعد سلیمانؑ کی یہاں پر عظیم تاریخی حکومت سے لے کر بخت النصر کی حکومت کے زوال کے پس منظر میں جا بجا اس علاقہ میں مختلف قبائل کے درمیان باہمی اختلاف وانتشار نظر آتا ہے پہلی جنگ عظیم کے موقع پر ڈاکٹر وائز مین نے انگریز حکومت سے وہ مشہور پروانہ حاصل کرلیا جو اعلان بالفور کے نام سے معروف تھا یاد رہے کہ اعلان بالفور کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فی صد بھی نہ تھی اس موقع پر لارڈ بالفور اپنی ڈائری میں لکھتا ہے ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے صہیونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیں اس کے بعد یہودیوں کی تعداد جو 1917 تک 25000 تھی 1939 تک ساڑھے چارلاکھ جا پہنچی ایک مکمل منصوبے کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں کو ارض فلسطین میں بسانا شروع کیا اس عمل کا مقصد یہودیوں کی خواہش قومی وطن کی جگہ قومی ریاست کا درجہ حاصل کرنا تھا۔
1947میں برطانیہ نے مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ میں پیش کردیا اور 1947 ہی میں فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کردیا گیا اہل کفر کی اجتماعی سازش نے ارض فلسطین میں اہل یہود کی راہ ہمیشہ کی لیے ہموار کردی مسلم ممالک کی کمزور پالیساں ناکامی ان کا منہ چڑاتی رہیں ابھی تک چڑا رہی ہیں، چشم فلک روز دیکھتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کے ساتھ ظلم وستم کیا جاتا ہے اور عالم اسلام مدہوشی کی تصویر بنے تماشا دیکھتا رہتا ہے عالم اسلام کے حکمرانوں کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہیں، کان ناکارہ اور زبانوں پر خامشی کے تالے لگائے ہوئے ہیں۔
ان دنوں اہل فلسطین بے یارومدد گار اسرائیلی مظالم کا سامنا کررہے ہیں اور اسرائیلی سفاک فوجی ان پر گولیاں برسا رہے ہیں۔ اقوام عالم کو اس اسرائیلی درندگی کا سخت نوٹس لینا چاہیے تاکہ انسانی زندگی کو لاحق خطرات سے محفوظ رکھا جاسکے مگر افسوس ماحولیات کے تحفظ کے بات کرنے والے نام نہاد بین الاقوامی حقوق ایجنسیاں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہیں دوسری جانب پاکستانی وزات خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے فلسطین میں اسرائیلی فوج کی بم باری کی مذمت کی ہے، عالمی برادری فلسطین میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا بھی نوٹس لے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان مسئلہ فلسطین کا مستقل بنیادوں پر حل چاہتا ہے، اسرائیلی افواج معصوم فلسطینیوں پر بم باری کر رہی ہیں، جس سے کئی معصوم فلسطینی شہید ہوئے۔ واضح رہے کہ فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی افواج کے حملوں میں شدت آ گئی ہے، رہائشی علاقوں پر بم باری میں 32 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، غزہ میں بے رحم صہیونی فورسز آبادیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، فورسز کی جانب سے فضائی حملے بھی جاری ہیں۔ عالم اسلام کو متحد ہوکر فلسطین اورکشمیر تنازع کو ختم کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرنی چاہیے یہ مسلم حکمرانوں پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ اب وقت آگیا ہے اس فرض اور قرض کو چکا دیا جائے اور دنیا کو یہ باور کرادیا جائے کہ اب غاصبانہ اقدامات کی تاریخ کا باب ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا یہ تب ہوگا جب عالم اسلام متحد ہوکر جسد واحد کی طرح ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ اور احساس کریں گے۔