برطانیہ میں اسلام دشمنی کی بے قابو ہوتی آگ

569

عین اس وقت جب کہ برطانیہ کی حکمران ٹوری پارٹی اقتدار کے لیے انتخابی جنگ میں مصروف ہے، ٹوری پارٹی کی ممتاز رہنما اور پارٹی کی سابق چیر پرسن، سعیدہ وارثی نے پارٹی میں اسلامو فوبیا، اسلام سے منافرت کے سنگین مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹوری پارٹی اپنی صفوں میں اسلام سے منافرت کے مسئلے سے نبٹنے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ سعیدہ وارثی نے اپنی پارٹی کا چھپا چہرہ روزنامہ گارڈین کے اس انکشاف کے بعد بے نقاب کیا ہے کہ ٹوری پارٹی کے 25موجودہ اور سابق کونسلر، سوشل میڈیا پر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نسل پرست مواد شائع کرتے رہے ہیں۔ سعیدہ وارثی نے جو برطانیہ کی پہلی مسلم وزیر رہی ہیں، سوال کیا ہے کہ ہم ٹوری پارٹی میں اسلام دشمنی کی کتنی شہادتیں پیش کریں کہ پارٹی اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرے۔ سعیدہ وارثی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم بورس جانسن نے وعدہ کیا تھا کہ پارٹی اس مسئلے کی بھرپور تحقیقات کرے گی اور اس کے تدارک کے بارے میں اقدامات کیے جائیں گے لیکن انہوں نے اپنے وعدے کو ایسے ٹال دیا کہ جیسے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ خود بورس جانسن کی کابینہ میں ایسے وزیر ہیں جو اسلام کے خلاف اپنی منافرت کو چھپاتے نہیں ہیں ان میں بریگزٹ کے انتظامات سے متعلق وزیر مائیکل گو نمایاں ہیں جو اسلام سے اپنی دشمنی کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ سعیدہ ورثی کا کہنا ہے کہ انہوں نے چار سال پہلے ٹوری پارٹی میں اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ دلائی تھی لیکن پارٹی کے تین چیر پرسن اور دو وزرائے اعظم کے بعد بھی یہ مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے۔ پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ اور کونسلر سوشل میڈیا پر بے دھڑک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز مواد شائع کرتے ہیں۔ جن میں مطالبہ کیا جاتا ہے کہ برطانیہ میں مساجد بند کر دی جائیں جہاں بقول ان کے شدت پسند اور دہشت گرد پروان چڑھتے ہیں۔ ٹوری سیاست دان مسلمانوں کو برطانیہ کے معاشرے کے اندر وحشی دشمن قرار دیتے ہیں۔
روزنامہ گارڈین نے ایک عرصہ پہلے مسلم دشمن مواد کی اشاعت میں ملوث ٹوری اراکین پارلیمنٹ کے نام شائع کیے تھے لیکن ان کو عارضی طور پر معطل کرنے کے بعد ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی بلکہ انہیں کچھ عرصہ بعد پارٹی میں بحال کردیا گیا۔ ایک تازہ جائزے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ٹوری پارٹی کے دو تہائی اراکین پارلیمنٹ کی یہ رائے ہے کہ وہ کبھی نہیں اس کی اجازت دیں گے کہ برطانیہ میں کوئی مسلمان وزیر اعظم برسر اقتدار آئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ برطانیہ کے بعض علاقوں میں مسلمانوں نے شرعی قوانین نافذ کر رکھے ہیں۔ یہ اشار ہ دراصل نکاح اور طلاق اور ازدواجی مسائل میں مسلمانوں کو مشورہ دینے کی تنظیموں کی طرف ہے۔ مسلمانوں سے منافرت پھیلانے کے لیے بعض ٹوری سیاست دانوں کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ برطانیہ کے بعض مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلموں کا داخلہ عملی طور پر ممنوع ہے جو نو گو ایریا کہلاتے ہیں۔
ممتاز کالم نگار پیٹر اوبورن کا کہنا ہے کہ ٹوری پارٹی میں اسلام دشمنی کی بنیاد۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے سابق برادر نسبتی (جمائما کے بھائی) زیک گولڈ اسمتھ نے ڈالی تھی جب کہ وہ لندن کے مئیر کے انتخاب میں صادق خان کے مقابلے میں کھڑے تھے۔ انتخابی مہم کے دوران زیک گولڈ اسمتھ نے صادق خان کو بدنام کرنے کے لیے ان پر مسلم شدت پسندوں کی حمایت کا بہتان لگایا تھا۔ اس موقع پر پاکستانیوں کو سخت تعجب ہوا تھا جب عمران خان خاص طور پر صادق خان کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کی انتخابی مہم میں مدد کے لیے لندن آئے اور اس دوران عمران خان نے مساجد میں جا جا کر مسلمانوں پر زور دیا تھا کہ وہ زیک گولڈ اسمتھ کو جتانے کے لیے ووٹ دیں۔ زیک گولڈ اسمتھ نے صادق خان کی آڑ میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جو زہریلا پروپیگنڈا کیا تھا اس پر ٹوری پارٹی نے زیک گولڈ اسمتھ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس موقع پر روزنامہ ٹیلی گراف، ڈیلی میل، سن اور ڈیلی ایکسپریس نے مسلمانوں کے خلاف بڑھ بڑھ کر زہر پھیلایا تھا۔ ٹوری پارٹی میں کھلم کھلا اسلام دشمنی کے باوجود ٹوری پارٹی کے سابق چیر پرسن برینڈن لویس کا اصرار ہے کہ پارٹی میں اسلاموفوبیا کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اسلام دشمنی کا مسئلہ صرف حکمران ٹوری پارٹی تک محدود نہیں ہے۔ برطانیہ میں روزگار اور دوسرے شعبوں میں بھی یہ مسئلہ نمایاں ہے جو مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن ہے۔ برطانیہ کے دو ممتاز پروفیسروں، ڈاکٹر نبیل خطاب اور پروفیسر ران جانسن نے قومی اعدادو شمار کے محکمے کے اعداد وشمار کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلام دشمنی کی وجہ سے مسلمان نوجوانوں کو اپنے انگریز ہم عمروں کے مقابلہ میں روزگار میں 76فی صد کم مواقعے ملتے ہیں۔ بعض اوقات قابل مسلمان نوجوان اپنے ناموں اور صورت شکل کی بنیاد پر خاموش تعصب کا شکار ہوتے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں عجب انداز سے اسلام دشمنی پھیل رہی ہے۔ مسلمانوں میں شدت پسندی پر نگاہ رکھنے کی اسکیم Prevent کے تحت اسکولوں اور کالجوں کی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ بچوں اور طلبہ میں شدت پسندی کے سد باب کے لیے طلبہ پر کڑی نگاہ رکھیں اور جس بچے اور طالب علم کے بارے میں ذرا بھی شبہ ہو تو وہ فوراً اس کی اطلاع پولیس کو دیں۔ یہ شکایت عام ہے کہ بعض اسلام دشمن ٹیچر، طلبہ پر شدت پسندی کا الزام لگا کر ان کو پولیس کے حوالہ کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ان طلبہ کا تعلیمی کیریئر تباہ ہو جاتا ہے۔
تازہ ترین جائزے کے مطابق برطانیہ کے 41فی صدی عوام کی رائے ہے کہ اسلام برطانیہ کے طرز زندگی کے لیے خطرہ ہے، یہ رائے خاص طور پر اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں میں عام ہے۔ درمیانی طبقہ میں بھی اسلام سے دشمنی بڑھ رہی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ برطانیہ کے عوام، مسلمانوں کو دوسری مذہبی برادریوں سے بالکل مختلف نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا میں جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے ان میں مسلمانوں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیاں تعلقات پر گہرا ا ثر پڑ رہا ہے۔ اسلام سے دشمنی ان لوگوں میں بہت زیادہ ہے جو برطانیہ میں غیر ملکی تارکین وطن کی آمد کے سخت خلاف ہیں ان کو خطرہ ہے کہ اگر غیر ممالک اور خاص طور پر مسلم ممالک سے امیگریشن کا موجودہ سلسلہ جاری رہا تو برطانیہ کی آبادی کا توازن بگڑ جائے گا اور بہت جلد مسلمانوں کی تعداد ملک پر چھا جائے گی۔ 1980 میں برطانوی میڈیا نے مسلم برادری کے خلاف منافی رویہ کو اسلامو فوبیا کا نام دیا تھا جو رفتہ رفتہ اسلام دشمنی میں تبدیل ہوگیا۔ یہ اسلام دشمنی مساجد پر حملوں اور حجابی مسلم خواتین کے ساتھ بازاروں میں زیادتی میں اضافہ کی صورت میں عیاں ہے۔ اسلام دشمنی کی اس لہر میں وزیر اعظم بورس جانسن بھی پیش پیش ہیں خاص طور پر مسلم خواتین کا تمسخر اڑانے میں وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ مسلم خواتین کو یاد ہے کہ بورس جانسن حجابی خواتیں کو لیٹر باکس اور بینک ڈاکو سے مشابہت دے چکے ہیں۔ برطانیہ میں اسلام دشمنی کی آگ جس تیزی سے پھیل رہی ہے اس پر برطانیہ کے مسلمانوں کو سخت تشویش ہے اور وہ پریشان ہیں کہ کوئی سیاسی جماعت اس آگ کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کرتی نظر نہیں آتی اور وہ مسلم ممالک بھی جو برطانیہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے پیش نظر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔