جھوٹے گواہ‘سچے وکیل اور غیر جانبدار جج

764

اختر بھوپالی
سانحہ ساہیوال کے مبہم فیصلے سے عوام کی نظر میں عدلیہ کا معیار گرتا نظر آرہا ہے گرچہ عدلیہ نے جو بھی فیصلہ کیا وہ گواہان کے بیانات۔ عینی شاہدین کے مشاہدات اور قانون کے مطابق ہی کیا ہے مگر عوام الناس کی اکثریت کو ہضم نہیں ہو پارہا ہے۔ سوشل میڈیا آج کل دل کی بھڑاس نکالنے کا سہل ذریعے ہے اور عوام توہین عدالت کی پروا نہ کرتے ہوئے تبصرہ کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں بچوں ہم مجبور ہیں آپ کے امی ابو کے قاتلوں کو سزا نہ دلا سکے۔ دوسرے نے کہا بچوں ہم شرمندہ ہیں ہم آپ کے لیے سزائے موت کا فیصلہ نہ کراسکے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ ہوسکتا ہے ہماری یہ تحریر بھی توہین عدالت کے زمرے میں آجائے جس کے لیے ہم پیشگی معذرت کے طلب گار ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ صاحب فرماتے ہیں جھوٹے گواہوں نے نظام عدل کو متاثر کیا ہے۔ قانون میں قتل کے مقدمے میں جھوٹی گواہی کی سزا عمر قید ہے۔ عدالت عظمیٰ سرگودھا میں مقامی شخص کے قتل سے متعلق جھوٹے گواہان کے بیان دینے کے باعث ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم کو بری کردیا اور آئندہ سماعت پر دونوں جھوٹے گواہان طلب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں گواہان موقع پر موجود نہیں تھے لیکن انہوں نے جھوٹی گواہی دے کر عدالت کو گمراہ کیا۔ دونوں گواہان پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ گواہ سچا ہے یا جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ تو وہی بولتا ہے جو اسے وکیل رٹاتا ہے۔ ہمیں یہاں ایک فلم کا منظر یاد آتا ہے جب ملزم سے سچ بولنے کا حلف لے کر وکیل صاحب جرح کرتے ہیں تو ملزم جج صاحب کو مخاطب کرکے بولتا ہے ان سے سچ بولنے کا حلف نہیں لیتے۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے اگر وکیل سچ بولنے لگے تو ہوگیا اس کا کاروبار۔ جیسے اس کیس میں ہوا۔ ہائی کورٹ کا جج یہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ گواہ جھوٹ بول رہے ہیں یہ تو بھلا ہو چیف جسٹس صاحب کا کہ انہوں نے بھانپ لیا ورنہ خامخواہ ایک بے چارے کو عمر قید کاٹنی پڑتی۔ عدالت عظمیٰ نے شہری کو ذبح کرنے کے ملزم کی عمر قید کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران کمزور استغاثہ اور جھوٹی شہادتوں کی بنا پر ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں بھی دو جھوٹے گواہ بنائے گئے۔ رات کے وقت ویران جگہ پر وقوعہ پیش آیا اور مقتول کے چچا اور والد گواہ بن گئے جن کو کسی نے آتے دیکھا نہ جاتے۔ گواہ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر سچ بولنے کا حلف اُٹھاتے ہیں اور پھر عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں۔ ملزم کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی مقدمہ عدالت میں جاتا ہے تو عدالت گواہ طلب کرتی ہے۔ جب تک مقدمے کا کوئی گواہ نہ ہو مقدمہ آگے نہیں بڑھتا۔ چناں چہ وکیل بیچارے کو گھر کی دال روٹی چلانے کے لیے سکھا پڑھا کر گواہ تیار کرنے پڑتے ہیں تب جا کر مقدمہ قابل سماعت ہوتا ہے۔ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے بھتا خوری کے الزام میں مجرم عبدالقادر کو عمر قید اور دیگر شریک تین ملزمان کو 5,5 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ملزمان نے 2013ء میں اسکول کی پرنسپل سے 50 لاکھ بھتا وصول کیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے مجرم عبدالقادر کی عمر قید کی سزا کو 5 سال قید میں تبدیل کردیا جب کہ تین ملزمان اپنی سزا کی مدت پوری کرچکے۔ اگر مجرم عبدالقادر کی سزا کا تعین بھی مقدمے کی تاریخ سے کیا جائے تو رہائی اس کا بھی حق ہے ورنہ عدالت عظمیٰ چلا جائے، ریلیف کے چانس ہیں۔ ٹرائل کورٹ سزائے موت دیتی ہے، عدالت عالیہ اس کو عمر قید میں تبدیل کرتی ہے اور سپریم کورٹ شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرتا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ ہر سنگین جرم دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے دہشت گردی کے مجرم کالے خان کی عمر قید کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کی اور مجرم کالے خان کو بری کردیا۔ مجرم کالے خان نے عدالتی احاطہ میں اپنے مخالف غلام محمد کو قتل کردیا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے مجرم کو سزائے موت سنائی تھی جس کو ہائی کورٹ نے اپیل کے بعد عمر قید میں تبدیل کردیا تھا جس کے خلاف اس نے عدالت عظمیٰ میں اپیل داخل کر رکھی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قتل ذاتی دشمنی کی بنا پر ہوا ہر سنگین جرم دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس کا مطلب کیا یہ لیا جائے کہ ذاتی دشمنی کی بنا پر قتل قابل معافی ہے؟
لاہور ہائی کورٹ نے جج کو کرسی مارنے پر سزا پانے والے وکیل کے خلاف اپیل پر سنائی گئی سزا معطل کردی۔ فیصل آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم کو 18 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اب جج ہی جج کا ساتھ نہیں دے رہے تو وکیل گردی تو زور پکڑے گی۔ لاہور کی مقامی عدالت نے نولکھا پان سگریٹ فروش جمشید اقبال کی سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ سنادیا۔ 2013ء میں رمضان آرڈیننس کے تحت اسپیشل مجسٹریٹ نے موقع پر 5 دن کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف جمشید اقبال نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور اپیل کا فیصلہ آنے میں 6 سال لگ گئے اور یوں 5 دن کی سزا 6 سال پر محیط ہوگئی۔ سیشن عدالت نے اپنے فیصلے میں معافی مانگی اور بری کردیا۔ ساتھ ہی اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ ملزم کو احترام رمضان آرڈیننس کے تحت اسپیشل مجسٹریٹ نے خلاف قانونی سزا سنائی تھی۔ 5 دن کی سزا میں 6 سال لگ گئے۔ عدالت غلط قید اور عدالتی سستی پر معافی مانگتی ہے، فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ رمضان آرڈیننس کی جس دفعہ کے تحت سزا دی گئی وہ آرڈیننس میں موجود ہی نہیں ہے۔ ایڈیشنل اسپیشل جج محمد عامر حبیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کا انصاف تو پتھر کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا یہ واقعہ اس عدالتی نظام پر دھبا ہے۔ اس خبر پر تبصرہ ہی فضول ہے کہ محترم جج نے خود ہی حقائق بیان کرکے عدالتی نظام پر شرمندگی کے اظہار کے ساتھ معافی طلب کررہے ہیں۔ مگر قابل توجہ بات یہ ہے کہ 5 دن کی سزا کے خلاف اپیل کا مشورہ کس نے دیا۔ یقینا کوئی سیانا ہی ہوگا جو عدالتی معاملات بھی جانتا ہوگااور سچا بھی ہوگا۔