اب تو ظلم کی انتہا ہو چکی ہے

615

سید محمد اشتیاق
2008 کی عالمی کساد بازاری کے اثرات اسٹیل مل پر بھی ظاہر ہوئے۔ سیاسی و ناقص انتظامی وجوہ سے اسٹیل مل خسارے سے نہ نکل پائی جب کہ مالی سال 2007۔ 2008 تک اسٹیل مل منافع میں تھی اور ملازمین بونس کے علاوہ دیگر ضمنی مالی فوائد و سہولتوں سے مستفید ہو رہے تھے۔ گزشتہ حکومتوں کی طرف سے اسٹیل مل کی پیداوار کو بڑھانے اور خسارے سے نکالنے کے لیے کئی بار عبوری مالی امداد دی گئی، لیکن اسٹیل مل کا خسارہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی گیا۔
2013 میں مسلم لیگ (ن) کو انتخابی کامیابی کے بعد حکومت ملی۔ حکومت نے اسٹیل مل کے سربراہ کو تبدیل کیا اور 18 ارب روپے کی عبوری مالی امداد دی۔ نئے سربراہ کی تبدیلی کے بعد بلاسٹ فرنس نمبر (2)، جو ایک عرصے سے بند پڑی تھی۔ ملازمین کی ان تھک محنت کے بعد دوبارہ چلائی گئی اور ایک موقع پر جب دونوں بلاسٹ فرنسوں کی پیداوار تقریباً 60 فی صد تک پہنچ گئی، تو بجلی کا بڑا بریک ڈائون ہوا، جس سے دونوں بلاسٹ فرنسوں کو نقصان پہنچا۔ بجلی کے بریک ڈائون کے بعد بلاسٹ فرنسوں کی بحالی کا کام جاری تھا کہ اسٹیل مل کو گیس کی فراہمی بند کر دی گئی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن اسٹیل مل بند ہے۔ اسٹیل مل کی بندش سے جہاں حکومت پر مالی بوجھ ہے، وہیں ملازمین بھی عرصہ دس سال سے مالی بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ چونکہ 2015 سے لے کر اب تک کوئی بھی حکومت اسٹیل مل کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے معذور ہے اسی لیے اسٹیل مل کے ملازمین کی مالی مراعات کے ساتھ دیگر سہولتیں بھی محدود کر دی گئیں ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ریٹائرڈ ملازمین کو 2013 سے واجبات کی ادائیگی بھی نہیں ہوئی ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں ریٹائرڈ ملازمین واجبات کا انتظار کرتے کرتے جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کے دیدوں میں نمی کے اثرات ناپید ہیں۔ ملازمین کے ساتھ ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ ملازمین کی انا کو ٹھیس پہنچانے اور ظلم کرنے کا ٹھیکہ اور ذمہ جو حکمرانوں نے عرصہ دس سال سے لیا ہوا ہے۔ اب اس میں نجی ادارے بھی شامل ہو چکے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ شہر کراچی کے اکثر بڑے اسپتال اور لیبارٹریاں اسٹیل مل کے پینل پر تھیں۔ پینل ڈاکٹرز کے علاوہ بے شمار نامور فزیشنز اور سرجنز بھی اسٹیل مل کے طبی پینل پر تھے۔ جب سے ادارے میں طبی سہولتیں محدود ہوئی ہیں، ملازمین کی بڑی تعداد مناسب طبی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے موت کی وادی میں جا چکی ہے۔ چونکہ اسٹیل مل ملازمین کی تنخواہ دس سال سے نہیں بڑھی ہے، بلکہ بعض الائونسز ختم کر دیے گئے ہیں۔ ملازمین کی بڑی تعداد شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ اور نجی طور پر علاج معالجہ کرانے سے قاصر ہے۔ خاص صورتوں میں ملازمین کو طبی سہولت حاصل ہے۔ جس کے حصول کے لیے بھی شدید تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔
بابر کی بیگم کے یہاں ولادت متوقع تھی اور ڈاکٹر نے آپریشن تجویز کیا تھا۔ الٹرا سائونڈ کی رپورٹ کے مطابق لڑکی کی ولادت کی خوش خبری سنا دی گئی تھی۔ بابر بھی خوش تھا، کہ بیٹے کے بعد بیٹی بھی گھر آ جائے گی اور گھر کی رونق میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اسٹیل مل کے محکمہ صحت کی طرف سے بابر کو ایک غیر معروف نجی اسپتال میں آپریشن کرانے کی اجازت دے دی گئی۔ الحمدللہ، آپریشن خیریت سے ہوگیا اور بیٹی کی پیدائش عمل میں آ گئی۔ دوسری طرف ایک ملازم اسٹیل مل اکبر بھی خوش تھا۔ چونکہ الٹرا سائونڈ رپورٹ میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی نوید سنائی گئی تھی اور ڈاکٹر نے یہ بھی بتایا کہ ایک لڑکی ہے اور ایک لڑکا۔ اکبر بھی خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا۔ لیکن آپریشن کے بعد اسپتال کے عملے نے بتایا کہ صرف لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ یہ خبر سن کر اکبر تو ہکا بکا رہ گیا۔ اسپتال کی انتظامیہ اور عملے کو الٹرا سائونڈز کی رپورٹس دکھائیں۔ جو اسی اسپتال کی تھیں، جہاں آپریشن ہوا تھا لیکن انتظامیہ اور عملہ کسی طور ماننے کو تیار نہیں۔ جس ڈاکٹر نے آپریشن کیا، وہ اسپتال سے استعفا دے گئیں ہیں۔ معاملہ پولیس تک چلا گیا اور اسپتال میں چھاپوں کے ساتھ تحقیقات ہنوز جاری ہیں۔ لیکن مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ اسپتال کی انتظامیہ اکبر پر صلح کا دبائو ڈال رہی ہے۔ اکبر کا مطالبہ بس یہی ہے کہ اس کا بیٹا اسے واپس کیا جائے۔ چونکہ مبینہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آپریشن کرنے والی ڈاکٹر نے یہی بیان دیا ہے کہ بچے دو ہی پیدا ہوئے تھے۔
حاضر سروس و ریٹائرڈ ملازمین اسٹیل مل ایک طویل عرصے سے حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ 40 سال نوکری کرنے کے بعد ریٹائر ہونیوالے ملازمین کو ان کے واجبات ادا نہ کیے جائیں۔ اسٹیل مل کی بحالی اور نجکاری کے بارے میں عام انتخابات سے قبل موجودہ حکمرانوں کی جانب سے مسحور کن باتوں، تقریروں اور وعدوں کے بعد ان پر عمل نہ کیا جائے۔ تو ایسی صورت حال میں ملازمین کی بے بسی و بے کسی اندازہ لگانا، کسی بھی اہل دل کے لیے چنداں مشکل نہیں۔ لگتا ہے کہ حکمرانوں کے سینے میں دل نہیں ہے۔ جب ہی ملازمین کے سینوں پر مسلسل مونگ دلے جا رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت وقت نے سکھ برادری کو ان کے مذہبی مقام تک اربوں روپے خرچ کر کے راہ داری دی ہے اور دوسری طرف ملازمین اسٹیل مل کی فریاد و آہ زاری سے حکمراں بے خبر ہیں اور چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔ جب حکومت کی طرف سے ملازمین پر ظلم و ستم جاری ہو تو نجی ادارے کیوں پیچھے رہیں۔ اکبر کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے۔ یہ ظلم کی انتہا ہے اور موجودہ حکمران ہی اس کے ذمے دار ہیں۔