سندھ اور وفاق کی چپقلش

318

پاکستان کا واحد صوبہ سندھ ہے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہے یا اس کا عمل دخل نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وفاق اور صوبے کے درمیان شدید کھنچائو ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وفاق سندھ حکومت کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ کسی بھی ایک صوبے میں کسی اور پارٹی کی حکومت کیا گل کھلا سکتی ہے اور کیا تبدیلی لاسکتی ہے اس کا مظاہرہ آج کل بھی دیکھنے میں آرہا ہے اور اس سے قبل پنجاب میں میاں نواز شریف اور مرکز میں پی پی کی حکومت یا مرکز میں پی پی پنجاب میں شہباز شریف حکومت اس کے نتیجے میں پہلی مرتبہ اسلامی جمہوری اتحاد پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف وزیراعظم بنے۔ پنجاب کی حکومت کے ذریعے پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ مضبوط کیا اور 90ء کے انتخابات میں حکومت بنالی۔ لیکن 93ء میں پھر پی پی کو حکومت مل گئی۔ ماضی ہی میں کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں اس نے مرکز میں متنازع حکومت بنالی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی سندھ میں پی پی کی حکومت کو مستقل الجھا کر رکھنا چاہتی ہے تا کہ وہ مرکز کی طرف رُخ نہ کرے۔ یعنی اگلے انتخابات میں اس کے قدم مرکز کی طرف نہ بڑھیں۔ گزشتہ دنوں سی پی این ای کے وفد کے ساتھ وزیراعلیٰ سے ملاقات ہوئی، اس ملاقات کا مقصد تو سندھ حکومت کے ذمے اخبارات کے واجبات کی ادائیگی کروانا تھا لیکن اس موقع پر وزیراعلیٰ کا موڈ وفاق اور خصوصاً عمران خان کے بارے میں گفتگو کا محسوس ہوا۔ وہ بار بار ایڈیٹرز کو اُکسا رہے تھے کہ آپ کے مسئلے کو تو میں جلد حل کروادوں گا لیکن وہ وزیراعظم کا رویہ تو دیکھیں۔ مثال کے طور پر لوگ کہتے ہیں کہ میں وزیراعظم کا استقبال نہیں کرتا۔ یہ بات سرے سے غلط ہے میرا نام ہی وہ لوگ ملاقات کرنے والوں میں نہیں رکھتے۔ صرف پہلی مرتبہ میرا نام شامل تھا بعد میں کبھی نہیں رکھا گیا۔
مراد علی شاہ کا رویہ جارحانہ بھی تھا اور شکوہ کرنے والا زیادہ تھا بلکہ اگر گھنٹے بھر کی گفتگو کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ ساری گفتگو میں شکوہ زیادہ تھا۔ اس میں وفاق کی بے اعتنائی سے زیادہ عمران خان نیازی کے انداز سیاست کا دخل نظر آتا ہے۔ جیسی روح ویسے فرشتے کے مصداق جام شورو سیہون روڈ کے مسئلے پر وزیراعظم کو خط لکھا کہ اس پر کام نہیں ہورہا پیسے بھی دے دیتے ہیں تو وزیراعظم نے وزیر مملکت مراد سعید کو کہا کہ حکومت سندھ سے رابطہ کریں۔ وفاقی وزیر کا انداز کار ملاحظہ فرمائیں وہ گورنر ہائوس پہنچے اور وزیراعلیٰ کو پیغام بھیجا کہ میں یہاں آیا ہوں اگر ملنا ہے تو آجائیں۔ یا تو وزیر موصوف حکومتی معاملات چلانے کے آداب سے ناواقف ہیں یا ان کے اس رویے کے پیچھے وہی انا اور اکڑ ہے جو ان کے لیڈر کی خصوصیت بیان کی جاتی ہے۔ وزیراعلیٰ کا یہ شکوہ بھی بجا ہے کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کے طور پر میں نے وزیراعظم کو کئی خط لکھے لیکن انہوں نے کسی کا جواب نہیں دیا۔ مراد علی شاہ صاحب ہمارا وزیراعظم تو سید علی گیلانی کے خطوط کا جواب نہیں دیتا اپنے وزیراعلیٰ کو کیا اہمیت دے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ سب سے زیادہ برہم 162 ارب روپے کے اعلان کے باوجود سندھ کو کراچی کی ترقی کے لیے ایک پیسہ بھی نہ دینے پر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 162 روپے بھی نہیں ملے۔ لیکن اصل خرابی سندھ میں وفاق کی مداخلت ہے۔ وہ گورنر کے ذریعے کراچی میں ترقیاتی کام کروانے کے برملا مخالف تھے جب کہ اسد عمر کو یہ ذمے داری دینے کے مخالف بھی تھے۔ ان کا موقف تھا کہ کراچی سمیت سندھ کا نظام ہم چلا رہے ہیں تو وفاق ہمیں رقم دے۔ یہ اور بات ہے کہ جس قسم کا نظام سندھ میں چل رہا ہے وہ کوئی الگ نظام نہیں ہے پورے ملک میں ایسا ہی نظام چل رہا ہے۔ سندھ کی انتظامیہ کوئی کارنامہ نہیں کررہی۔ لیکن ان کا شکوہ بجا ہے کہ اگر صوبے اور ملک کے کسی شہر کی ترقی کے لیے وفاق رقم دے رہا ہے تو دے لیکن اس کو خرچ کرنے کا اختیار متعلقہ انتظامیہ ہی کو ہونا چاہیے۔ اس ملاقات میں وفاقی تحقیقاتی اداروں کے رویے کی بازگشت بھی سنائی دی۔ سابق صوبائی وزیر کے گھر سے دو ارب روپے نکلنے کی خیر ہے لیکن صوبائی حکومت اس سے لاعلم ہے کہ وہ رقم کہاں گئی۔ وہ تو صوبائی حکومت کی تھی تو صوبے کے خزانے میں آنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس طرح ایک کشتی سے 6 ارب روپے ملے تھے تو وہ کس خزانے میں جمع ہوئے۔ وفاق کو ملے یا کہاں گئے۔ وزیر اعلیٰ اس پر کسی کا نام لینے پر تو تیار نہیں تھے لیکن حیرت کا اظہار ضرور کرتے رہے کہ جس کی رقم چوری ہوئی اسے تو ملنی چاہیے۔ مراد علی شاہ نے وزیراعظم عمران خان کے بارے میں کہا کہ ان کا رویہ نہایت غیر مناسب ہے۔ ممکن ہے وزیراعظم چھوٹے بڑے کا فرق رکھتے ہوں لیکن ایک صوبے کا وزیراعلیٰ تو ریاستی امور میں اگر وزیراعظم کے مساوی نہیں تو کم بھی نہیں ہوتا۔ وفاق اور صوبے کا یہ اختلاف کیا گل کھلائے گا اس کا اندازہ ہورہا ہے۔ ممکن ہے آنے والے کچھ دنوں میں وفاقی حکومت سندھ کی حکومت گرانے کی کوئی کوشش کرے لیکن ایسی ہر کوشش پیپلز پارٹی کے سندھ کارڈ کو مضبوط کرے گی۔ ویسے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے نے بھی پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت کو تقویت دی ہے۔ اس کے جواب میں صوبائی انتظامیہ دھرنے کو سہولتیں دے رہی ہے۔