ڈینگی، کتے اور وزیر صحت ’’پھپھو‘‘ کا ذکر

225

کراچی سمیت صوبے پر آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں اضافے کے ساتھ ڈینگی کی وباء پھیل رہی ہے۔ اندرون سندھ انسانی صحت کے حوالے سے بھی صورتحال تشویشناک ہے۔ گزشتہ 11 سال سے سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کا راج ہے اتنے ہی برسوں سے کراچی سمیت پورے صوبے کے لوگ حکمرانوں اور ان کے لیڈروں کے متلاشی ہیں جو کرپشن کے مقدمات میں ملوث ہوکر اب احتساب عدالتوں اور احتساب بیورو کے چکر لگا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینئر اور چند سال سے خاموش رہنمائوں کا کہنا ہے کہ اب جو پیپلز پارٹی چل رہی ہے وہ ’’پیپلز‘‘ کی نہیں آصف زرداری اور ان کے خاندان کی جماعت ہے۔ اس لیے اسے اب صرف آصف زرداری، ان کی بہنوں اور دوستوں کی فکر ہے۔ پیپلز پارٹی کراچی کے علاقے لیاری جو ایک عرصے تک اس کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اب وہاں اس کے داخلہ بند ہوچکا ہے۔ لاڑکانہ جو پی پی پی کا ہیڈ کوارٹر کہلاتا تھا وہاں بھی گیارہ سال کے دوران وہ اپنی حیثیت اور مقبولیت تیزی سے کھو رہی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ لوگوں کے مسائل کے حل میں اس کی عدم دلچسپی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے جیالے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی ناقص کارکردگی پر جمعہ کو سندھ اسمبلی میں بھی بازگشت ہوئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی خرم شیر زمان نے اسمبلی میں مرادعلی شاہ کے خلاف قرار داد جمع کرادی۔ قرارداد جمع کرانے کے بعد خرم شیر زمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مرادعلی شاہ صوبے میں گڈ کورنس، لوگوں کی فلاح و بہبود، امن و ترقی کے امور میں ناکام ہوچکے ہیں اس لیے انہیں وزیراعلیٰ کے عہدے سے فوری مستعفی ہوجانا چاہیے۔
خرم شیر زمان ایک ایسے وزیراعلیٰ سے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں جو اپنے حلقہ انتخاب، اپنی پارٹی کے پسندیدہ اضلاع کے مسائل تو کجا ان مسائل کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ لاڑکانہ اور سکھر میں ایڈز کے مرض میں سیکڑوں بچوں کے مبتلا ہونے کے انکشاف نے بھی وزیراعلیٰ کی توجہ اس جانب مبذول نہیں کرائی اور ان دنوں وہاں آوارہ کتوں کے بچوں کو کاٹنے کے واقعات نے بھی ان کی حکومت پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ کراچی اور اندرون سندھ کے لوگوں کو تو چاروں طرف کتوں کی یلغار نظر آتی ہے۔ کتوں کے کاٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات سے لوگ سمجھنے لگیں ہیں کہ یہاں پیپلز پارٹی کا نہیں کتوں کا راج ہے۔ سکھر میں ایک بلاول اور لاڑکانہ میں چھ سالہ حسین کو کتوں نے بری طرح زخمی کیا دونوں بچوں کو فوری کتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں دی جاسکی۔ جبکہ لاڑکانہ کے حسین کو کتوں نے بری طرح کاٹا تھا جس سے معصوم بچے کے چہرے اور جسم کے دیگر حصوں پر کئی گہرے زخم آئے اس بچے کو بھی ابتدائی طبی امداد تک نہیں دی جاسکی، اسے کراچی کے ایک این جی او کے تحت چلنے والے انڈس اسپتال کورنگی منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹر نے فوری طبی امداد فراہم کی اور علاج کیا لیکن اسپتال میں بیڈ نہ ہونے کی وجہ سے امراض اطفال کے قومی مرکز میں منتقل کیا گیا۔ صحت کی سہولت کی فراہمی کے لیے اربوں روپے کا بجٹ خرچ کرنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے سکھر اور لاڑکانہ کے یہ واقعات ہی مستعفی ہونے کے لیے بہت تھے۔ ایسے واقعات پر تو اصولاً ذمے داروں کو گرفتار ہی کرلینا چاہیے۔ مگر سندھ میں تو صرف ’’زندہ ہے بھٹو‘‘ یہی بات پوری پیپلز پارٹی کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔
کتے صرف اندرون سندھ میں ہی نہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں بھی ’’آدم خور‘‘ بن کر معصوم انسانوں پر حملے کررہے ہیں جبکہ ڈینگی کی وباء بھی پورے صوبے میں پھیل چکی ہے۔ حکومت ڈینگی کے علاج اور اس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی مانیٹرنگ کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ مسعود سولنگی کی سربراہی میں بنانے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکی۔ ڈی جی ہیلتھ سولنگی چونکہ خود بھی ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرے کی گونج میں ڈی جی ہیلتھ بنے ہیں اس لیے ان کے پاس ان کاموں کے لیے وقت شاید ہے نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اس کمیٹی کو فعال کرسکے اور نہ اس کا ایک اجلاس بھی طلب کرسکے۔ عام بات ہے کہ اندرون سندھ ہی کیا بڑے شہروں میں موجود بیش تر سرکاری اسپتالوں میں علاج کے سوا دیگر تمام سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں۔ ان سہولتوں سے اسپتالوں کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھر پور اور اپنے خواہش کے مطابق فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ڈی جی ہیلتھ ہی کیا سیکرٹری ہیلتھ اور منسٹر ہیلتھ بھی اپنے محکمے کو اپنی آمدنی اور لوگوں کو نوازنے کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ وزیر صحت آصف زراداری کی بہن اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول کی پھپھو ہیں۔ کوئی بھلا اپنی پھپھو کے خلاف کیا کارروائی کرے گا؟
’’پھپھو‘‘ کو چاہیے کہ ڈینگی کے علاج کے لیے کچھ نہیں تو صرف پپیتے کے پتوں کا جوس مریضوں تک پہنچانے کے لیے این جی اووز کی مدد سے اقدامات کریں اور آوارہ کتوں کی ’’آوارہ گردی‘‘ روکنے اور انسانوں کو کاٹنے سے بچاؤ کے لیے حکومتی سطح پر ان کو پکڑ کر کم ازکم ایدھی کے حوالے کرنے کے لیے ہی کچھ اقدامات کرلیے جائیں تاکہ لوگ ان سے محفوظ رہ سکیں۔ میں یہاں پیپلز پارٹی کی حکومت کے امراض قلب کے علاج کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی تعریف کرنا چاہوں گا کیونکہ اگر یہ نہیں کیا تو صحافتی ذمے داریوں سے بد دیانتی ہوگی۔ اس لیے یہ بات پوری ذمے داری سے لکھی جارہی ہے کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکلر ڈیزیز اور اس سے منسلک ایمرجنسی پین سینٹرز کا قیام اور یہاں دل کے امراض کا مفت علاج کی بہترین سہولت فراہم کرنا پیپلز پارٹی کی حکومت کا ’’بڑا کام‘‘ ہے۔ کاش حکومت دیگر اسپتالوں پر بھی اسی طرح توجہ دیتی تو کیا بات ہوتی۔