فلسفہ زدہ پیرزادے کے نام

1185

ایک کالم نویس یاسر پیرزادہ نے نام لیے بغیر اسلام کے تمام بنیادی اعتقادات کی توہین کر ڈالی ہے۔ یاسر پیرزادہ نے اپنے حالیہ کالم میں فرمایا ہے کہ یورپ کی ساری ترقی اس کے اٹھارہ فلسفیوں کی فکر کا حاصل ہے۔ ان فلسفیوں نے یورپ میں روشن خیالی کی تحریک کو پروان چڑھایا، یاسر پیرزادہ نے لکھا۔
’’اس تحریک کی بنیاد اس بات پر تھی کہ انسانی ترقی کا راز ’’تنقیدی سوچ‘‘ میں مضمر ہے نہ کہ ’’اندھے اعتقادات‘‘ اور ’’توہمات‘‘ میں۔ (روزنامہ جنگ 3نومبر 2019ء)
یاسر پیرزادہ نے یورپ کے تناظر میں مسلمانوں سے کہا کہ تمہیں بھی یورپ کی طرح ترقی کے لیے اٹھارہ فلسفیوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یورپ کے فلسفیوں کی ایک فہرست بھی مرتب کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ کبھی مسلمانوں میں بھی فلسفے کی توانا روایت موجود تھی مگر مسلمانوں نے اس روایت کا گلا گھونٹ دیا اور ابن رشد جیسے فلسفی کو کفر کے فتوئوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یاسر پیرزادہ نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کا عروج ’’زیادہ عرصے‘‘ باقی نہ رہا۔ یاسر پیرزادہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمان علم و تحقیق میں منگولوں سے بہتر تھے مگر عسکری میدان میں ان کے آگے پانی بھرتے تھے۔ اس کے برعکس یورپ نے صنعتی انقلاب برپا کرکے بہتر ہتھیار بنالیے اور یاسر پیرزادہ کے الفاظ کے مطابق ’’دنیا کو اپنے آگے لگالیا‘‘۔
یاسر پیرزادہ کا یہ پورا کالم ضلالت اور گمراہی میں ڈوبا ہوا ہے۔ انہوں نے ’’مذہبی اعتقادات‘‘ کو ’’اندھے اعتقادات‘‘ قرار دیا ہے۔ ’’اندھا اعتقاد‘‘ کیا ہے؟ ’’ایمان بالغیب‘‘۔ جیسے ان دیکھے خدا پر ایمان، اس بات پر ایمان کے انبیا پر وحی آتی تھی، اس بات پر ایمان کہ فرشتوں کا کوئی وجود ہے۔ اس بات پر ایمان کہ قیامت آئے گی اور آخرت کا کوئی وجود ہے۔ یاسر پیرزادہ اگر ان تمام باتوں کا ذکر کردیتے تو ایک ہنگامہ ہوجاتا۔ چناں چہ ’’حکمت عملی‘‘ کے تحت انہوں نے ’’اندھے اعتقادات‘‘ کی مجرد اصطلاح استعمال کی۔ ’’توہمات‘‘ کا لفظ ’’وہم‘‘ سے برآمد ہوا ہے۔ وہم وہ چیز ہے جس کا حقیقت میں وجود نہ ہو مگر انسان نے کسی نفسیاتی یا ذہنی بیماری کے سبب اسے ’’حقیقی‘‘ سمجھ لیا ہو۔ مثلاً کوئی شخص مذہبی تعلیمات کے زیر اثر یہ سمجھتا ہو کہ جنات کا وجود ہے یا قبر میں واقعتا عذاب ہوتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ان چیزوں کا وجود ’’حقیقی‘‘ ہے اور یہ چیزیں کسی کے تخیل کی پیداوار نہیں۔ مگر جدید مغرب ان چیزوں کو ’’توہمات‘‘ قرار دیتا ہے اور یاسر پیرزادہ نے یہاں بھی تصورات کا نام لیے بغیر مذہبی اعتقادات پر بھرپور حملہ کیا ہے۔
یاسر پیرزادہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یورپ کی ترقی کا راز ’’تنقیدی سوچ‘‘ میں ہے۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کو ترقی کرنی ہے تو انہیں بھی ’’تنقیدی سوچ‘‘ اپنانی ہوگی۔ مگر ’’تنقیدی سوچ‘‘ سے مراد کیا ہے؟ یورپ کی فکری تاریخ کے تناظر میں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تنقیدی سوچ خدا کا انکار ہے، رسالت کے ادارے کا انکار ہے، وحی کا انکار ہے، عبادات کا انکار ہے، آخرت کا انکار ہے، حلال و حرام کے امتیاز کا انکار ہے اور اس بات کا انکار ہے کہ اخلاقیات ’’مطلق‘‘ یا Absolute ہوتی ہے۔ یعنی اخلاقی تصورات دائمی ہوتے ہیں اور حالات اور ماحول بدلنے سے ان میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔ اس تناظر میں یاسر پیرزادہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ تمہیں ترقی کرنی ہے تو یورپ کی طرح خدا کا انکار کرو، مذہب کا انکار کرو، مذہب کی اتھارٹی کا انکار کرو، اس سے معلوم ہوا کہ یاسر پیرزادہ کے نزدیک خدا، رسالت، وحی، حلال و حرام اور مطلق اخلاقیات کی اہمیت مادی ترقی سے بہت کم ہے۔ مادی ترقی اتنی اہم ہے کہ اگر اس کے لیے خدا اور مذہب کا انکار کرنا پڑے تو مسلمانوں کو اس سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ اسلام مذاہب عالم کی تاریخ میں سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے اور اسلامی تاریخ 800 سے ایک ہزار سال تک دنیا کی غالب تہذیب رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ غلبہ کسی نام نہاد روشن خیالی کے زیر اثر یا خدا اور مذہب کو ترک کرکے نہیں بلکہ اسلام کو سینے سے لگا کر کیا ہے۔ اس کے برعکس یورپ کے سامنے مادی ترقی اور مذہب میں سے کسی ایک کے انتخاب کا سوال آیا تو یورپ نے اپنے مذہب کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا اور مادی ترقی کو سر پر بٹھالیا، روح میں سجالیا اور ذہن میں راسخ کرلیا، اس کے معنی یہ ہوئے کہ غلبے کے اعتبار سے اسلام اور عیسائیت کی تاریخ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے اور مغرب کی تاریخ مسلمانوں کے لیے نمونہ نہیں بنائی جاسکتی۔ ہمیں حیرت ہے کہ یاسر پیرزادہ اور ان جیسے لوگوں کو یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ مسلمان تاریخ کے ایک طویل دور میں اگر مذہب کی وجہ سے دنیا پر غالب ہوسکتے ہیں تو وہ مذہب کی بنیاد پر دوبارہ دنیا میں غلبہ حاصل کرسکتے ہیں۔ یعنی تاریخی تجربے کے تناظر میں مسلمانوں کو دنیا میں غالب آنے کے لیے خدا اور مذہب سے لاتعلق ہونے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کا زوال ہوا ہی اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے خدا، قرآن پاک اور رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہؐ کے ساتھ تعلق کے تقاضوں کو پورا کرنا چھوڑ دیا۔ یاسر پیرزادہ کو فلسفے کی الف ب بھی معلوم نہیں مگر وہ فلسفے کے عاشق ہیں۔ حالاں کہ اسلامی تاریخ میں غزالی سے اقبال تک ہربڑے مفکر نے فلسفے کو رد کیا ہے۔ غزالی نے فلسفے کو دو بنیادوں پر رد کیا۔ انہوں نے فلسفے کے رد کی پہلی وجہ یہ بتائی کہ فلسفہ مذہبی فکر سے ہم آہنگ نہیں بلکہ وہ مذہبی فکر کا حریف ہے۔ غزالی نے فلسفے کے رد کی دوسری وجہ یہ بتائی ہے کہ فلسفیانہ فکر ہم آہنگی یا Coherent نہیں ہے یعنی داخلی تضادات کا شکار ہے۔ چناں چہ وہ انسانوں کے لیے ’’رہنما‘‘ نہیں ہوسکتی۔ ہمارے زمانے میں اقبال نے اپنی شاعری میں فلسفے کی پوری روایت کو مسترد کیا ہے بلکہ انہوں نے اپنی ایک نظم ’’ایک فلسفہ زدہ سید زاد کے نام‘‘ میں فلسفے سے متاثرہ لوگوں کا مذاق اڑایا ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زناریِ برگساں نہ ہوتا
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
ہے اس کا طلسم سب خیالی
محکم کیسے ہو زندگانی
کس طرح خودی ہو لازمانی
آدم کو ثبات کی طلب ہے
دستور حیات کی طلب ہے
دنیا کی عشا ہو جس سے اشراق
مومن کی اذاں ندائے آفاق
میں اصل کا خاص سومناتی
آبا مرے لاتی و مناتی
تو سید ہاشمی کی اولاد
میری کفِ خاک برہمن زاد
ہے فلسفہ میرے آب و گل میں
پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں
اقبال اگرچہ بے ہنر ہے
اس کی رگ رگ سے باخبر ہے
شعلہ ہے ترے جنوں کا بے سوز
سُن مجھ سے یہ نکتۂ دل افروز
انجامِ خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ زندگی سے دوری
افکار کے نغمہ ہائے بے صوت
ہیں ذوقِ عمل کے واسطے موت
دیں ملک زندگی کی تقویم
دیں سرِّ محمدؐ و براہیمؑ
جیسا کہ ظاہر ہے کہ اقبال نے اس نظم میں فلسفے کی ’’میں‘‘ کے گلے پر چھری پھیر دی ہے۔ اقبال ملا یا مولوی نہیں تھے۔ وہ جدید تعلیم یافتہ شخص تھے۔ انہوں نے نظم میں صاف کہا ہے کہ بھائی میرے آبائو اجداد تو برہمن تھے اس لیے فلسفہ میرے خمیر کا حصہ ہے۔ اقبال کا کہنا یہ ہے کہ انسان کو ’’دستورِ حیات‘‘ کی طلب ہے اور فلسفے کے پاس دستور حیات نہیں۔ ہیگل مغرب کے عظیم فلسفیوں میں سے ایک ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا بنایا ہوا فلسفیانہ نظام ’’جامع ترین‘‘ تھا مگر اقبال کہہ رہے ہیں کہ ہیگل نے اپنے فلسفے میں جو بت تراشے ہیں وہ سب خیالی ہیں انہیں محل میں ڈھال کر حقیقت نہیں بنایا جاسکتا۔ اقبال نے یہ بات بھی صاف کہی ہے کہ عقل اپنی انتہا پر بھی بے حضوری کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہے۔ اس لیے فلسفہ زندگی سے دوری کا دوسرا نام ہے۔ اقبال نے سید زادے سے مخاطب ہو کر یہ بات بھی صاف کہی ہے کہ تو اگر اپنی خودی سے محروم نہ ہوتا تو کبھی مغربی فلسفی برگساں کا عاشق نہ ہوتا۔ تو کیا یاسر پیرزادہ مغرب کے فلسفے کو اقبال سے زیادہ جانتے ہیں؟۔
یاسر پیرزادہ نے لکھا ہے کہ ابنِ رشد جیسے فلسفی کو کفر کے فتوئوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر یاسر پیرزادہ نے یہ نہیں بتایا کہ ابن رشد کو کافر کہا گیا تو اس کی وجہ کیا تھی؟ یاسر پیرزادہ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ابن رشد کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ یہ عالم قدیم ہے۔ یعنی کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ ابن رشد کا یہ عقیدہ خدا کی دائمیت کے عقیدے سے متصادم ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے، یہ کسی ملا یا مولوی کا نہیں قرآن کا بیان کردہ ہے۔ مگر ابن رشد نے عالم کو قدیم قرار دے کر اسے معاذ اللہ خدا کے ہم پلّہ بنادیا۔ ابن رشد کے خلاف کفر کا فتویٰ اس بنیاد پر دیا گیا۔ پھر ابن رشد فلسفے کے زیر اثر لفظوں کے ایسے کھیل میں مصروف تھا جو ایمان کی کمزوری کا سبب بن سکتا ہے۔ مثلاً ابن رشد نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کیا خدا ایسا پتھر بنا سکتا ہے جسے وہ خود بھی نہ اُٹھا سکتا ہو۔ کوئی راسخ العقیدہ مسلمان اس طرح کی بکواس پر مائل نہیں ہوسکتا۔ اس طرح کی باتوں کی وجہ سے علما ابن رشد کے خلاف ہوگئے تھے۔ ابن رشد سے ستّر اسّی سال پہلے غزالی یونانی فلسفے کا رد لکھ چکے تھے۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
ابن رشد نے اس رد کا جواب لکھا مگر ابن رشد کا جواب کمزور تھا۔ چناں چہ علما اور عوام میں سے کسی نے ابن رشد کا اثر قبول نہ کیا اور مسلم دنیا فلسفے کے ان مضمرات سے بچ گئی جن مضمرات نے یورپ میں مذہب کے انکار کو ممکن بنادیا۔ یاسر پیرزادہ کا یہ خیال بھی درست نہیں کہ مسلمان تاتاریوں سے لڑنے کے قابل نہ تھے۔ جلال الدین خوارزم نے کئی برس تک تاتاریوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کئی محاذوں پر تاتاریوں کو شکست دی مگر خلیفہ بغداد نے جلال الدین کی مدد سے انکار کردیا۔ خلیفہ وقت جلال الدین کی مدد کرتا تو تاتاریوں کو عسکری طور پر شکست دی جاسکتی تھی۔ یاسرپیرزادہ کی یہ رائے بھی غلط ہے کہ مسلمانوں کا عروج بہت کم وقت کے لیے تھا۔ فتح مکہ سے سلطنت عثمانیہ کے زوال تک کا عرصہ 800 سال سے زیادہ ہے۔ اس عرصے کو کم کہنا جہالت اور مسلمانوں سے یاسر پیرزادہ کی نفرت کا ثبوت ہے۔