نواز شریف واپس نہ آئے تو عدالت کے مجرم ہوں گے

334

معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی کابینہ کے فیصلے کو ہی برقرار رکھا ہے، اینڈیمنٹی بانڈ کی شرط کو معطل کیا گیا مسترد نہیں، اب اگر سابق وزیراعظم نواز شریف واپس نہ آئے تو عدالت کے مجرم ہوں گے۔

اسلام آباد میں اٹارنی جنرل انور منصور کے ہمراہ پریس کانفرنس سے  کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ رات دیر گئے ہائی کورٹ کا شارٹ آرڈر آیا ہے، وزارت داخلہ کو جب ای سی ایل سے نکالنے کا آرڈر موصول ہوا تو فوری طور پر کاروائی شروع کی گئی۔ کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے سفارشات کابینہ کے سامنے رکھیں تھی،سفارشات کے مطابق سزا یافتہ مجرم کو قانون کے مطابق ای سی ایل سے نام نہیں نکالا جا سکتا، لیکن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ون ٹائم اجازت دی۔

انہوں نے کہا کہ سفارشات کے مطابق چار ہفتوں کی اجازت دی،سزا یافتہ کی واپسی کو انشور کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے، کسی کے ماضی کو دیکھ کر ایسا فیصلہ کیا جاتا ہے، ماضی میں یہ وعدے توڑتے رہے، سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ یہ صادق اور امین نہی ہیں، ان کے بچے عدالتوں سے مفرور ہیں، انڈیمنٹی کی شرط ان کے ماضی کو دیکھتے ہوئے بہت ضروری تھی، ہمارا ماننا ہے لاہور ہائی کورٹ نے کابینہ ون ٹائم اجازت کے کابینہ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ چار ہفتوں کی اجازت کا فیصلہ بھی برقرار رکھا گیا، انڈیمنٹی کی جگہ لاہور ہائی کورٹ نے انڈرٹیکنگ کی شرط رکھ دی، انڈرٹیکنگ کی خلاف ورزی کی گئی تو یہ سنگین جرم ہوگا، انڈرٹیکنگ کی خلاف ورزی سے ان کا مستقبل بھی متاثر ہوگا،

انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ فیصلہ کابینہ کے فیصلے کو ری انفورس کرتا ہے، انڈیمنٹی بانڈ ریکوری کے لئے نہیں مانگا گیا تھا، اب اگر یہ واپس نہیں آتے تو یہ عدالت کے مجرم بھی ہونگے۔حکومت کا یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ عام انسان اور ان جیسے لوگوں کے لئے ایک ہی قانون ہو، ظاہر ہے ہمیں دوسرے ملک کو بتانا پڑے گا کہ ہمارا سزا یافتہ شخص آپ کے پاس ان شرائط پر آرہا ہے، سزا یافتہ شہریوں کی حوالگی کا اصول مختلف ہے۔

شہزاد اکبر نے کہاکہ ہمیں ابھی تک آفیشل کاپی نہیں ملی، آفیشل کاپی وزارت داخلہ کو ملے گی ای سی ایل سے نام وہ نکالے گی، حتمی فیصلہ کابینہ کرے گی،منگل کو اجلاس میں کابینہ کے سامنے معاملہ رکھا جائے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہائی کورٹ کے آرڈر میں چند کروشل چیزیں لکھی گئی ہیں، عدالت نے کہا کہ اگرنواز شریف  نے ایکسٹینشن مانگی تو کیس دوبارہ  سنا جائے گا، انہوں نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ون ٹائم اجازت ہے، ان کا بیگ گراؤنڈ ٹریک ریکارڈ صحیح نہیں ہے، عدالت نے اس لئے انڈرٹیکنگ لی کہ عدالت کو بھی ان پر یقین نہیں تھا، اگر نواز شریف کی صحت ٹھیک نہیں ہوتی تو ظاہر ہے دوبارہ معاملہ عدالت جائے گا،پھر دیکھا جائے گا کہ کیا وہ باہر جانے کا بہانہ کر رہے ہیں یا واپس نہیں آنا چاہتے،اگر واپس آنے سے گریز کریں گے۔

انور منصور نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ انڈیمنٹی بانڈ سے بھی زیادہ سخت ہے،نواز شریف اور شہباز شریف نے گارنٹی کے طور پر خود کو عدالت میں گروی رکھوا دیا ہے، گروی رکھوانے سے یہ ایکسپوز ہوجائیں گے،واپس نہ آنے کی صورت میں توہین عدالت کی کاروائی شروع ہوجائے گی۔

انھوں نے کہاکہ انشور کرانے کا مطلب یہ ہے بندہ اپنے کندھے پر بوجھ لے رہا ہے، واپس نہ آئے تو عدالت صادق اور امین کے پیرائے کی طرف جائے گی، حکومت نے جو باتیں کہی تھیں ان ہر پورا عملدرآمد ہوا ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ ابھی ہائی کورٹ نے کیس مزید سننا ہے، انڈیمنٹی بانڈ کا معاملہ بھی عدالت سنے گی، اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ شارٹ آرڈر نہیں انٹیرم آرڈر ہے ۔