بخار کیا ہے؟ کیسے پھیلتا ہے؟ اور اس سے کیسے بچیں؟

1275

فاطمہ عزیز

پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈینگی بخار ایک وبائی صورت اختیار کر چکا ہے ایک اندازے کے مطابق اس مرض سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ہزار ہو چکی ہے ۔ ڈینی ایک وائرل بخار ہے جو خاص قسم کے مچھروں کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے ۔ ڈینگی کے وائرس چار طرح کے اور ڈینگی وائرس4 ہیں جن کے نام ڈنگی وائرس ۱، ڈینگی وائرس ۲، ڈینگی وائرس ۳ اور ڈینگی وائرس ۴ ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی وائرس اگر مچھر کے کاٹنے کے ذریعے انسانی خون میں شامل ہو جائے تو ڈینگی بخار پیدا کر سکتا ہے ۔ ڈینگی بخار ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے اور وہ مچھر مادہ ایڈیس یا ایگی پٹی مچھر کہلاتا ہے ۔
ڈینگی بخار میں زیادہ تر علامات جو دیکھی گئی ہیں ان میں تیز بخار جو ایک سو چار ڈگری تک پہنچ جاتا ہے اور نزلہ ، جلد میں خراش ، الرجی ، کھانسی ، آنکھوں میں درد اور پٹھوں میں درد شامل ہیں ۔ کچھ لوگوں کی جلد میں سفید اور لال دھبے پڑ جاتے ہیں ، بھوک مر جاتی ہے ، الٹی اور قے کی کیفیت اس کی عام علامات ہیں ۔ ڈینگی کی علامات بظاہر عام سی بیماری کی طرح دکھائی دیتی ہیں اس لیے ڈینگی بخار کو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے اور اس کے لیے ٹیسٹ کرانا ضروری ہیں۔ اگر ڈینگی کا ٹیسٹ پازیٹو آے تو پہلے تین دن پلیٹ لٹس کا ٹیسٹ کرائں۔ جو مریض ڈینگی بخار میں مبتلا ہیں ان کو چاہئے کہ فوراً ڈاکٹر کا مشورہ حاصل کریں ،آرام کریں اور زیادہ پانی اور جوسز پئیں، بے جا کام اور تھکن سے بچیں کیوںکہ اس بخار میں پلیٹ لٹس بہت تیزی سے کم ہوتے ہیں، جسم میں خارش نہ کریں اور خود کو چوٹ لگنے سے بچائں ۔ ڈینگی میں پیرا سیٹا مول بخار اتارنے کے لیے لی جا سکتی ہے اور جسم کے درد کے لیے بھی یہی دوا لیں،اس سے بخار کم ہوجائے گا مگر ڈینگی میں بخار اترتا نہیں ہے۔ ایسپرین اور آئی بیوبروفن لینے سے گریز کریں کیونکہ یہ دوائیں خون پتلا کرتی ہیں اور ڈینگی بخار میں ویسے ہی خون بہنے کا بہت زیادہ اندیشہ ہوتا ہے، ڈینگی بخار میں پیچیدگی کا اندیشہ صرف ایک فیصد مریضوں میں ہوتا ہے اور اگر وہ علامات پہلے پکڑ لی جائیں تو اموات روکی جا سکتی ہیں ۔
ڈینگی بخار کے لیے ٹیسٹ:
ڈینگی بخار کے لیے وہ ٹیسٹ جس سے یقینی طور پر پتہ چل جائے کہ خون میں ڈینگی وائرس ہے اس کا نام پی سی آرPCR ہے ۔ یا پھرآرٹی ، پی سی آر ۔ یہ ٹیسٹ یہ بھی بتا دیتا ہے کہ مریض کو ڈینگی ہے، چکن گونیا ہے یا پیلا بخار مگر اس ٹیسٹ کو کرنے کے لیے ماہر اسپیشلسٹ چاہییں ، خاص ری ایجنٹس چاہیے اور رزلٹ آتے آتے چار سے سات دن لگ جاتے ہیں جو کہ ایک بیماری کے علاج میں بہت اہم ہوتے ہیں ۔ اس لیے جیسے جیسے یہ بیماری عام ہوئی سائنس دانوں نے ایک اور ٹیسٹ ایجاد کیا ہے جس کا نام این ایس1 ہے ۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے جسم میں اینٹی جن ڈالے جاتے ہیں اور یہ بخار کے پہلے دن ہی بتا سکتا ہے کہ ڈینگی بخار ہے یا نہیں ۔
مریضوں کو چاہیے کہ ہمیشہELISA کےNs-1 ٹیسٹ کرائیں یہ غلط نتیجہ نہیں دیتا اور ڈینگی وائرس کو جلد پکڑ لیتا ہے ۔
یہ ٹیسٹ 2006ء میں ایجاد ہوا اور آج کل اسپتالوں میں ہزار سے دو ہزار روپے میں ہوتا ہے ۔ جبکہ کارڈ ٹیسٹ نتیجہ صحیح نہیں دیتا ۔ اگر علامات واضح ہوں اور رزلٹ(-ve) نیگیٹو آئے تو دوسرے دن احتیاطاً ٹیسٹ پھر کرائیں۔
IgM/IgG کی قدریں:
اگر مریض کی بلڈ رپورٹس میں پلیٹ لٹس کم آئیں اور تیسرے چوتھے دن کے بخار میں اس کی حالت خراب دکھتی ہو توIgG کی قدر کا زیادہ آنا اورIgM کا بھی بارڈر لائین پر ہونا بتاتا ہے کہ اس مریض کو دوسرے درجے کا ڈینگی بخار ہے جس کو ڈینگی ہیموریجک بخار بھی کہتے ہیں اس میں خون بہنے اور پیچیدگیوں کا زیادہ خطرہ ہے جبکہ پہلے درجے کے ڈینگی بخار میںIgG ساتویں دن بڑھا ہوا آتا ہے چوتھے دن نہیں ۔
اصل میںIgG اورIgM انسان کے مدافعاتی نظام میں اینٹی بوڈیز ہیں جو کہ انفیکشن سے لڑنے کے لیے انسانی جسم پیدا کرتا ہے ۔ ڈینگی بخار میں انسانی جسم پہلےIgM پیداکرے گا اور اس کی مقدار زیادہ ہوجائے گی۔پھر آہستہ آہستہIgG بڑھنا شروع ہو گا ۔خطرناک ڈینگی میںIgG چوتھے دن کے بخار میں ہی بڑھ جا تا ہے ۔
(IPF)امیچیور پلیٹ لٹس فراکشن ٹیسٹ:
اگر مریض کو خون بہہ رہا ہے ڈینگی بخار میں تو یہ ٹیسٹ کرانا فائدہ مند ہے ۔ یہ ٹیسٹ عام لیبارٹریز میں نہیں ہے ۔ اگر مریض کاIPF دس فیصد سے زیادہ ہے اورپلیٹ لٹس کا فرنٹ بیس ہزار ہیں تو وہ خطرے سے باہر ہے اور اس کے پلیٹ لٹس ایک دن میں بڑھ جائیں گے ۔، اگرIPF کم ہے ۔ پانچ فیصد ہے تو اس کا بون میسرو تین چار دن تک پلیٹ لٹس نہیں بنا پائے گا اور اس کو پلیٹ لٹس سفیوژن کی ضرورت ہے۔
لومین پلیٹ لٹس والیوم
(Lowmean Platelets Volume)
یہ ایک اور ٹیسٹ ہے اگر وہ کم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پلیٹ لٹس کام نہیں کر رہے اور مریض کو توجہ کی ضرورت ہے۔
عوام میں یہ بات عام ہے کہ ڈینگی بخار سے خون میں پلیٹ لٹس کم ہو جاتے ہیں جس سے موت واقع ہو جاتی ہے ۔ اس لیے مریض اور ان کے اہل خانہ اکثر خون کی تلاش میں اسپتالوں میں مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے ۔
بین الاقوامی اصولوں کے مطابق مریض کو اس وقت تک خون کی ڈرپ لگانے کی ضرورت نہیں ہے جب تک اس کے پلیٹ لٹس کی گنتی دس ہزار سے نیچے نہ چلی جائے اور مریض کا خون بہنے لگے ۔ عام طور پر پلیٹ لٹس کی گنتی/150,000-450,000 مائیکرو لیٹر خون میں شامل ہوتی ہے ۔ اگر یہ دس ہزار سے نیچے چلی جائے تو مریض کو خون بہنے یعنی تھرمبو سائٹو پینیا کا خطرہ ہوتا ہے۔
آج کل ڈینگی عام ہو گیا ہے اور بارشوں کے بعد مچھروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔ شہر کے تمام بڑے ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں اور مریضوں کے اہل خانہ خون کی تلاش میں اسپتالوں میں اِدھر اُدھر بھاگتے پھرتے نظر آتے ہیں ایسے میں لوگوں میں یہ آگاہی پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے کہ ڈینگی بخار میں پہلا علاج پلیٹ لٹس ٹرانسفیوژن نہیں ہے بلکہ اگر یہ ٹرانسفیوژن کسی ایسے مریض کو دے دیا جائے جس کا پلیٹ لٹس کی گنتی دس ہزار سے زیادہ ہے تو اس کو فائدے کے بجائے نقصان ہو گا ۔
ڈینگی میں عموماً موت کی وجہ چھوٹی نسوں سے خون کا بہہ کر بڑی نسوں اور رگوں میں آ جانا ہے ۔ جس کی وجہ سے انسانی اعضاء مثلاً گردوں اور جگر وغیرہ میں خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے اور اعضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ڈینگی میں پانی اور جوس زیادہ سے زیادہ پینا چاہیے کیونکہ یہ بخار گردوں میں سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے ۔ کچھ خطرناک کیسز میں گردے فیل ہو جائیں تو منہ سے پانی کا لینا خطرناک ثابت ہوتا ہے اور ڈائلیسز کی طرف جانا پڑتا ہے ۔
ڈینگی مرض کو اگر خون بہنے لگے تو ڈاکٹرز کو چاہیے کہ مریض کا وزن لیں اور ہر کلو گرام وزن کے لیے بیس ملی لیٹر ما ئع ہر گھنٹے میں مریض کو ڈرپ کے ذریعے چڑھائیں ۔ مثلاً اگر مریض پچاس کلو گرام کا ہے تو1000 =50 x20 ملی لیٹر پلیٹ لٹس اور فلیوڈز ایک گھنٹے میں مریض کے جسم میں پہنچنا چاہیے ۔ ایک پلیٹ لٹس میگا یونٹ میں تین سو ملی لیٹر ہوتا ہے ۔ یہ کام اس وقت تک کرتے رہیں جب تک کہ مریض کے اوپر اور نیچے کے بلڈ پریشر کا درمیانی فرق40mmHg سے زیادہ نہ آ جائے یا پھر مریض مناسب پیشاب کرنے لگے ۔ بس اتنا ہی کرنا کافی ہوگا خواہ مخواہ کا پلیٹ لٹس ٹرانس فیوژن مریض کو اور بیمار کر دے گا ۔
ڈاکٹرز کے لیے ہدایات:
بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ڈاکٹرز کے لیے ہدایات ہیں کہ مریض کا علاج کرتے ہوئے بیس کا فار مولا یاد رکھیں یعنی
اگر مریض کی دھڑکن معمول سے بیس زیادہ ہے ۔
اگرمریض کا بلڈپریشر اچانک20mmHg سے زیادہ گر گیا ہے ۔
اگر مریض کا اوپر اور نیچے کے بلڈپریشر میں درمیانی فرق20 ہے یا اس سے کم ہے
اگر مریض کے بازو میں ٹارنی کیوٹ ٹیسٹ (Tourniquet test) کرنے کے بعد خون بہنے کے نشانات بیس یا بیس سے زیادہ واضح نظر آئیں تو ایسے مریض کو زیادہ خطرہ ہے ۔ اور اس کو فوراً طبی سہولیات مہیا کی جائیں ۔
ٹارنی کیوٹ ٹیسٹTourniquet test:
یہ ٹیسٹ نسون کی نزاکت معلوم کرتا ہے کتنے چانس ہیںکہ مریض کا نسوں سے خون بہہ جائے گا ۔ اس کے لیے بلڈ پریشر کف کو بازو میں چڑھا کر مڈ پوائنٹ تک ہوا بھردیں اور پانچ منٹ بعد اتاریں ۔ اگر بازو کی جلد کے ایک انچ میں دس یا بیس سے زیادہ لال سرخ نشانات موجود ہوں تو ایسے مریض کو خون بہہ جانے کا خطرہ ہے ۔
یہ ٹیسٹ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے ضروری قراردیا گیا ہے کیونکہ ڈینگی بخار میں ہیمریج(خون بہہ جانے) کے خطرے کو ناپنے کے لیے یہ ٹیسٹ ضروری ہیں ۔
پپیتے کے پتوں سے علاج:
ڈینگی بخار میں پپیتے کے پتے کا رس مفید ہوتا ہے ۔ ریسرچ سے ثابت ہے کہ پپیتا پلٹ لٹس بڑھاتا ہے اور انسانی دفاعی نظام کو تقویت پہنچاتا ہے ۔ اس کے اندر اینٹی آوکسیڈنٹ خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کہ انفیکشن سے لڑنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں ۔ بہت سے ڈاکٹرز اور ہیلتھ ایکسپرٹ ڈینگی بخار میں پپیتا کھانے کا مشورہ دیتے ہیں ۔
اس کے لیے آپ چاہیں تو پپیتے کے پتوں کو پانی میں اُبال کر پانی کو پئیں یا پھر پپیتا روزانہ کھائیں یا اس کے گودے کا شربت بناکر پئیں ۔ اس کے علاوہ سیب کے رس میں لیمو اور چقندر کا رس بھی ملاکر پینا فائدے مند ہے ۔