پاکستانی حکمران خوف کے حصار سے نکلیں

446

قارئین کو یاد ہوگا کہ جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے اپنے اندر ضم کرنے کا اقدام کیا اور مقبوضہ علاقے میں کرفیو اور ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کیں تو بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے پوری امت مسلمہ کے نام ایک ایس او ایس پیغام جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت کشمیری مسلمانوں کا وجود ختم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ پوری دنیا کے مسلمان اپنے بھائیوں کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں اور انہیں تحفظ دیں اس پیغام کے جواب میں بعض مسلمان ملکوں کا ردعمل انتہائی سفاکانہ رہا۔ جنہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پزیرائی کرکے یہ ثابت کیا کہ انہیں اپنے مسلمان کشمیری بھائیوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور وہ بھارت کے ساتھ اپنے مادی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم گیلانی صاحب کے پیغام پر پاکستان کا ردعمل بہت مثبت تھا۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے اہل کشمیر کو یقین دلایا کہ وہ ان کے تحفظ اور دفاع کے لیے آخری سپاہی، آخری گولی اور آخری سانس تک لڑیں گے۔ اس بیان کا مقبوضہ کشمیر میں پُرجوش خیر مقدم کیا گیا۔ سری نگر اور دیگر شہروں میں اس بیان پر مشتمل بڑے بڑے بینرز آویزاں کیے گئے اور بھارت کو خبردار کیا گیا کہ پاکستان کی فوج ان کے ساتھ ہے وہ اسے کچل کر رکھ دے گی۔ پھر عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا گئے وہاں انہوں نے عالمی لیڈروں سے خطاب کرتے ہوئے کشمیریوں کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی اور بھارت کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا لیکن عالمی سطح پر سرد مہری برقرار رہی۔ اقوام متحدہ اہل کشمیر کے حق میں ایک قرارداد بھی منظور نہ کرسکی اور امریکا سمیت کسی ملک نے بھی بھارت کے خلاف بولنا گوارا نہ کیا۔ دوسری طرف پاکستان نے کشمیریوں کا دل جیتنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے جو دلیرانہ بیان دیا تھا اس کا اثر بھی وزیراعظم عمران خان نے یہ کہہ کر زائل کردیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جہاد اور وہاں فوج بھیجنے کی باتیں کشمیریوں اور خود پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے۔ انہوں نے نہایت خوفزدہ لہجے میں کہا کہ بھارت چاہتا ہے کہ پلواما جیسا کوئی واقعہ ہو اور وہ آزاد کشمیر یا پاکستان پر حملہ کردے۔ یہ گویا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ کشمیری پاکستان کی جانب سے بھارت کے خلاف کسی جرأت مندانہ اقدام کی توقع نہ رکھیں کیوں کہ خود اسے بھارتی جارحیت کا خوف ہے اور وہ اسے ایسا کوئی موقع نہیں دینا چاہتا کہ وہ پاکستان پر چڑھ دوڑے اور جنگ چھڑ جائے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں سید علی گیلانی نے اپنی علالت اور بڑھاپے کے سبب شدید نقاہت کے باوجود وزیراعظم عمران خان کو براہ راست خط لکھا ہے اور اس بات کا اظہار کیا ہے کہ شاید یہ ان کا آخری خط ہو اور دوبارہ انہیں مخاطب کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ یہ خط بھی ایس او ایس پیغام کے مماثل ہے جس میں پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے ساتھ تمام معاہدوں مثلاً
معاہدہ تاشقند، شملہ سمجھوتا، ایل او سی پر باڑھ لگانے کا معاہدہ یا واجپائی کے ساتھ لاہور ڈیکلریشن ان سب سے دستبردار ہوجائے۔ کنٹرول لائن کو پھر جنگ بندی لائن قرار دے دیا جائے اور ان فیصلوں کے ساتھ اقوام متحدہ سے رجوع کیا جائے۔ گیلانی صاحب کا موقف یہ ہے کہ چوں کہ بھارت نے کسی معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور اس نے یک طرفہ کارروائی کرکے ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی و آئینی حیثیت کو تبدیل کردیا ہے اس لیے پاکستان کو بھی کسی معاہدے کو گلے لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے ازسرنو کشمیر کا کیس عالمی ادارے میں پیش کرنا چاہیے، خود وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ہم اقوام متحدہ کے ذریعے کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلوا کر رہیں گے۔ تاہم یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے بھارت کو پسپا ہونے پر مجبور کیا جائے۔ کشمیریوں کو گلہ ہے کہ اس سلسلے میں کوئی مثبت اور حوصلہ افزا پیش رفت نہیں ہورہی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے کرتارپور راہداری کھولنے پر جتنی پھرتی دکھائی ہے اگر اتنی یا اس سے کم پھرتی کشمیری عوام کے مسائل حل کرنے پے دکھاتا تو کم از کم وہ کرفیو اور ذرائع ابلاغ پر پابندیوں سے آزاد ہوچکے ہوتے۔ پاکستان اپنی کمزور سفارت کاری کے سبب عالمی رائے عامہ کو کشمیریوں کے حق میں ہموار کرنے میں ناکام رہا، وہ نہ او آئی سی کو اس مقصد کے لیے استعمال کرسکا نہ اقوام متحدہ کو بروئے کار لاسکا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشمیریوں پر عائد ناروا پابندیاں ہٹوانا ہمارا اصل مقصد رہ گیا ہے۔ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مطالبہ تو کہیں اندھیروں میں گم ہوگیا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی ساری توجہ بھارت کے ساتھ دوستی قائم کرنے پر ہے۔ ماضی میں بھی حکمرانوں کا یہی رویہ تھا اور اب عمران خان بھی یہی راگ الاپ رہے ہیں۔ کرتارپور راہداری کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے جو خطاب کیا اس میں اسی راگ کو اہمیت دی گئی اور کہا گیا کہ یہ شروعات ہے بھارت سے ایسے تعلقات ہوں گے جو ہونے چاہئیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی عمران خان کے خطاب کی پزیرائی کی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ عمران خان نے اگرچہ اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کا بھی ذکر کیا، لیکن اس میں جوش و جذبے کا فقدان تھا، وہ یہ کہتے سنے گئے کہ مودی ہمیں مسئلہ کشمیر سے آزاد کریں ہم انسانوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔ مودی اس کے جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تو کشمیر کو بھارت میں ضم کرکے آپ کو مسئلہ کشمیر سے آزاد کردیا ہے اور آپ کو کیا چاہیے۔ دیکھا جائے تو عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر نہایت کمزور موقف اختیار کیا ہے۔ اس موقع پر بھارت کو نہایت ٹھوس پیغام جانا چاہیے تھا۔
اب دیکھیے عمران خان سید گیلانی کے خط پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ گیلانی صاحب کو پاکستانی حکمرانوں کی بے حسی و بے اعتناعی کا نہایت تلخ تجربہ ہے لیکن ان کے پاس پاکستان کے سوا کوئی اور آپشن بھی نہیں ہے وہ ہرحال میں پاکستان سے ہی امیدیں وابستہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستانی حکمرانوں کو بھی یہ توفیق دے کہ وہ ان کی امیدوں پر پورا اترے اور خوف کا حصار توڑ کر کشمیریوں کی پشیتبانی کریں۔