اور اب ٹائیفائیڈ…!!

365

نزہت منعم
ایک اخباری اطلاع کے مطابق ’’حکومت سندھ کے حفاظتی ٹیکوں سے متعلق صوبائی توسیعی پروگرام (ای پی آئی) میں وفاق، یونیسیف اور عالمی ادارہ برائے صحت ڈبلو ایچ او کے تعاون سے انسداد ٹائی فائڈ بخار کے لیے حفاظتی ٹیکوں کی مہم کا انعقاد کیا جائے گا۔ مہم سندھ کے شہری علاقوں میں 18 سے 30 نومبر تک چلائی جائے گی۔ یہ ویکسین 9 ماہ سے 15 سال کی عمر تک کے بچوں کو دی جائے گی جب کہ اسکولوں اور ای پی آئی کے مراکز کے ذریعہ ویکسین کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی‘‘۔ (روزنامہ جسارت بروز جمعہ 8 نومبر) ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اس حوالے سے اسکولوں کو نوٹس بھی موصول ہوئے ہیں۔ یقینا عوام کی صحت کے لیے اقدامات کرنا حکومتوں کی اولین ذمے داری ہے۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ ہماری حکومت نے اس ذمے داری کو محسوس تو کیا صرف دو بیماریوں کے ضمن میں ہی سہی۔
بیماری کوئی بھی ہو پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں پاکستان میں جان لیوا بیماریاں وبا کی طرح پھیلی ہیں۔ سال رواں میں صرف کراچی میں نیگلیریا سے 19 اموات ہو چکی ہیں۔ پورے پاکستان میں ڈینگی بخار کے 44000 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں اور اس میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ رواں برس اس بخارنے 70 افراد کی جان لی ہے۔ کینسر، ہیپاٹائیٹس، ٹی بی، فالج اور دل کے جان لیوا امراض میں ملک میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، لیکن حکومتوں کی توجہ نہ تو کبھی ان بیماریوں کی طرف ہوئی نہ ان عوامل کے تدارک کے لیے اقدامات کیے گئے جو ان بیماریوں کے پھیلائو کا سبب بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصل اور زیادہ اہم مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے جزوی اور ثانوی مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور ان کے تدارک کے لیے تمام حکومتی مشنری کا استعمال عوام کی ذہنوں میں شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ پولیو یقینا ایک خطرناک بیماری ہے اس کی روک تھام کے لیے حکومت بھی اپنا سارا زور لگا رہی ہے، بھرپور وسائل استعمال کررہی ہے اس کے باوجود بھی پورے ملک میں اس سال بھی پولیو کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ہم مسلمانوں نے تو خود پر تحقیق کے دروازے بند کردیے ہیں ورنہ یہی جان لیتے کہ ’’ہر بچہ ہر بار‘‘ کے باوجود ملک سے اس بیماری کا خاتمہ کیوں نہیں ہو رہا؟؟ یہ واحد پروگرام ہے جو ہر حکومت جاری رکھتی ہے اور حکومتوں کی تبدیلی سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر اسی طرح ہر حکومت پچھلی حکومتوں کے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھے تو حادثات میں خاطر خواہ کمی واقع ہو لوگ معذور ہونے سے بچ جائیں گے جو روزانہ حادثات کے نتیجے میں عمر بھر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔
گندگی اور کچرا تمام بیماریوں کی جڑ ہیں جتنے وسائل ان ویکسین کی آگاہی مہم پر خرچ کیے جارہے ہیں وہ صفائی پر خرچ کردیے جائیں تو ملک سے آدھی سے زیادہ بیماریاں خود ہی ختم ہوجائیں۔ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ صرف سندھ میں رواں برس 69000 کیسز کتے کے کانٹنے کے رپورٹ ہوئے ہیں جن میں 14000 صرف کراچی جیسے بڑے شہر کے ہیں اموات کی تعداد بھی 23 سے تجاوز کرچکی ہیں۔ اسپتالوں میں اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قوم کو کتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ جان کر بھی ہم حیران رہ گئے کہ کتوں کی اس بہتات کی وجہ عدالت عالیہ کی کتا مار مہم پر لگائی گئی پابندی ہے جو کتوں کے حقوق کی محافظ این جی او کی درخواست پر لگائی گئی ہے، جیسے کہ قائد اعظم نے یہ ملک بنایا ہی ان کتوں کے لیے تھا۔ (یہاں کتوں سے ہماری مراد کتے ہی ہیں، کوئی اور مطلب نکالنے کی کوشش نہ کریں)۔
کیا ہی ضروری ہے کہ ہم بین الاقوامی این جی اوز اور عالمی اداروں کی عینک سے سب کچھ دیکھیں۔ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں جو یہ عینک آپ کو دکھا رہی ہے۔ خدارا اپنے وطن کو اپنی آنکھ سے دیکھیں اور عوام کے حقیقی اور سنگین مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں۔ آگاہی مہم ضرور چلائیں اور ہر حوالے سے چلائیں لیکن تعلیمی اداروں کو مشق ستم نہ بنائیں جس ادارے کا جو کام ہے وہ اسے کرنے دیں۔ ویسے بھی انجیکشن لگانے کا عمل پولیو کے قطرے پلانے جتنا آسان نہیں ہے۔ اس سلسلے میں والدین کو ہی ان کی ذمے داریوں سے آگاہ کریں۔ تعلیمی اداروں میں یکسوئی سے تعلیم کا سلسلہ چلنے دیں اسے اسپتال نہ بنائیں کبھی تو پاکستانی بن کر سوچیں۔