مہنگائی اور معاشی اصلاحات

275

مہک سہیل
روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اشیائے خور ونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ مہنگائی کے بڑھتے ہوئے اس طوفان کی وجہ سے روز مرہ کی تمام اشیاء غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ باقی کسر بجلی ، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے نے پوری کر دی ہے۔ ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے کرائے بڑھا دیے ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ عوام کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ اس مہنگائی نے عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق ایک سال کے دوران گیس کی قیمتوں میں 55 فی صد اضافہ ہوا، پٹرول 21 فی صد مہنگا ہوا۔ بجلی 10.44 فی صد مہنگی ہوئی، ایک سال میں چینی 35 فی صد، دال ماش 32، دال مونگ 46 فی صد مہنگی ہوئی، خوردنی تیل اور گھی 18 فی صد، آٹا 12 فی صد مہنگا ہوا، سبزیاں 40 فی صد مہنگی ہوئیں۔ مہنگائی کی اِسی لہر کو بہانہ بنا کر سرکاری نرخ ناموں پر عملدرآمد کے برعکس سبزیاں کئی گنا مہنگی فروخت ہونے لگی ہیں۔ مارکیٹ کمیٹی سبزی منڈی کی جانب سے روزانہ سبزیوں کے پرچون نرخ نامے جاری کیے جاتے ہیں لیکن ان نرخوں پر سبزیاں کہیں بھی دستیاب نہیں۔ غربت کے مارے عوام پریشان ہیں۔ موجودہ صورتحال میں حکومت کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے ملک میں مینوفیکچرنگ میں اضافہ ہو اور ملک کے وسائل کو بڑھایا جا سکے ساتھ ہی حکومت کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کو کنٹرول کرنا ہوگا۔
ملک میں اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے اور اس کے نتیجے میں اکتوبر کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 11 فی صد تک پہنچ گئی جبکہ اس سے پہلے والے مہینے میں 11.4 فی صد رہی۔ خیال رہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں مہنگائی کی شرح 13 فی صد تک پہنچنے کا اندازہ لگایا تھا لیکن حکومتی تخمینوں کے مطابق مہنگائی کی شرح 11فی صد رہے گی جو حالیہ ماہ کے دوران پہلے ہی عبور ہوچکی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں پٹرولیم مصنوعات میں اضافے اور بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مجموعی طور پر افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوا۔ حکومت کی جانب سے کیے گئے مخصوص ٹیکس اقدامات کے اثرات بھی افراط زر کی شرح میں اضافے کا باعث بننے جبکہ روپے کی قدر میں کمی سے درآمدی صارفین اور صنعتوں کے استعمال کے لیے خام مال کی قیمتوں میں اضافہ بھی سامنے آیا حکومت کو چاہیے کہ وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پائے تاکہ عوام کو بھی ریلیف مل سکے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو 45 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط جاری کرنے کا اعلان کردیا ہے، آئی ایم ایف کی ٹیم نے دورے کے اختتام پر اعلامیہ جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مشکل حالات کے باوجود پاکستان نے پروگرام پر بہتر عمل درآمد کیا، اندرونی اور بیرونی خسارے کم ہورہے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ روکنے کے لیے مثبت اقدامات کیے ہیں، آنے والے دنوں میں مہنگائی میں کمی کا امکان ہے۔ حکومت نے فوری طور پر یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کو 6 ارب روپے فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ یوٹیلٹی اسٹورز سے کرپشن کے خاتمے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جائے۔ روز مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے تمام ممکن اقدامات کیے جائیں ساتھ ہی حکومت نے قومی بچت کی مختلف اسکیموں پر منافع کی شرح میں کمی کردی ہے۔
دوسری جانب مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کی معاشی و اقتصادی صورت حال بحران سے نکل کر مستحکم دور میں داخل ہوچکی ہے انہوں نے بتایا کہ جس وقت موجودہ حکومت وجود میں آئی تو معاشی اشاریے پریشان کن تھے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے فوری طور پر معاشی اصلاحات کے ذریعے صورتحال کو بہتر کیا گیا۔ درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 70 فی صد تک کمی لائی گئی دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جنوری 2020 سے مہنگائی میں کمی کی نوید سنائی ہے۔ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے، آئی ایم ایف کے مطابق اس سال مہنگائی تیرہ فی صد تک بڑھ سکتی ہے تاہم اسٹیٹ بینک کا تخمینہ ہے کہ مہنگائی بارہ فی صد سے نیچے رہے گی۔ امید ہے کہ حکومت معیشت اوپر جانے کا جو خواب عوام عوام کو دکھا رہی ہے وہ کسی حد تک پورا بھی کرے گی حکومت کے احساس پروگرام اور دیگر سماجی تحفظ کے اقدامات اگر کامیاب ہوتے ہیں تو مہنگائی کی شرح میں اضافے سے عام انسان زیادہ متاثر نہیں ہوگا۔ ان حالات میں عوام کو احساس پروگرام سے کئی امیدیں وابستہ ہیں۔