ترکی سے غیر ملکی داعشی جنجوئوں کی ملک بدری شروع

149

انقرہ (انٹرنیشنل ڈیسک) ترکی نے داعش کی صفوں میں شامل ہو کر لڑنے والے غیر ملکی جنگجوؤں کی ان کے آبائی ممالک واپسی شروع کر دی ہے۔ خبررساں اداروں کے مطابق پیر کے روز سب سے پہلے ایک امریکی شہری کو روانہ کیا گیا، جب کہ جرمنی اور ڈنمارک کے ایک ایک شہری کو بھی پیر ہی روز ملک بدر کیا گیا۔ رواں ہفتے کے دوران کئی یورپی نژاد جنگجوؤں کو ان کے آبائی ممالک روانہ کیا جائے گا۔ تُرک وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ امکاناً جمعرات کو 7 جرمن شہریوں کو ملک بدر کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ فرانس کے 11اور آئرلینڈ کے 2 جنگجوؤں کو ملک بدر کیا جانا ہے۔ پیر کے روز جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے کہ ترکی کی جانب سے 7 جنگجو اور 2 بچے بھیجے جا رہے ہیں۔ البتہ دیگر ممالک کی جانب سے فی الحال اس تازہ پیش رفت پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ وطن واپسی پر ان جنگجوؤں کے ساتھ کیا ہو گا۔ اس وقت ترکی کے 13 بے دخلی مراکز میں ان انتہا پسندوں کو رکھا گیا ہے اور ان کی آبائی ممالک کو حوالگی کے لیے سفری کاغذات کی تکمیل کی جارہی ہے۔ تُرک صدر رجب طیب اردوان نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ داعش کے کل 1149 جنگجو ترکی کے پاس زیر حراست ہیں، جن میں سے غیر ملکی جنگجوؤں کی تعداد 737 ہے۔ تُرک صدر کے بعد وزیر داخلہ سلیمان سوئیلو نے گزشتہ ہفتے دھمکی دی تھی کہ چاہے ان کی شہریت منسوخ کر دی گئی ہو، ترکی غیر ملکی جنگجوؤں کی ان کے ممالک واپسی شروع کر دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ فی الحال یہ واضح نہیں کہ جنگجوؤں کی ان کے آبائی ممالک روانگی کس سمجھوتے یا کن انتظامات کے تحت جاری ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ جن افراد کو ملک بدر کیا جا رہا ہے، آیا انہیں شام میں تُرک فوجی آپریشن میں گرفتار کیا گیا تھا یا پھر یہ پہلے سے کردوں کی قید میں تھے۔ ترکی نے شام سے متصل اپنی سرحد پر 9 اکتوبر سے فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ تُرک فوج کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) اور داعش کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ دوسری جانب وائی پی جی امریکا نواز شامی جمہوری فوج کی قیادت کر رہی ہے اور یہ امریکی فورسز کے ساتھ ایک عرصے تک داعش کے خلاف متحرک رہی ہے۔ داعش کے تقریباً 10 ہزار جنگجو شامی جمہوری فوج کے مراکز میں قید ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد غیر ملکی جنگجوؤں کی ہے، تاہم کئی یورپی ممالک جنگجوؤں، ان کی بیواؤں اور بچوں کو واپس لینے سے انکار کر چکے ہیں۔