عقیدۂ نبوت ورسالت (حصہ دوم)

501

نبی کو اللہ تعالیٰ وجاہت سے نوازتا ہے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اے مومنو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسیٰؑ کو اذیت پہنچائی تھی، تو اللہ نے موسیٰؑ کو اُن کی تہمت سے بری کردیا اور وہ اللہ کے نزدیک وجاہت (عزت) والے تھے، (الاحزاب: 69)‘‘۔ چونکہ نبی امت کے لیے قُدوہ، مُقتدیٰ اور پیشوا ہوتا ہے، اس لیے اس کا معزز وباوقار ہونا منصبِ نبوت کا تقاضا ہے، سو یہ کہنا کہ ’’نبی اللہ تعالیٰ کے نزدیک (معاذ اللہ!) چوہڑے چمار کی مثل ہے‘‘۔ کھلی گمراہی ہے۔ نبی لوگوں کے درمیان رہتا ہے، سوتا جاگتا ہے، کھاتا پیتا ہے، بشری عوارض بھی اُس پر طاری ہوتے ہیں: جیسے صحت ومرض، خوشی اور غم کا لاحق ہونا، وفات پانا وغیرہ، لیکن نبی ایسے عوارض سے پاک ہوتا ہے جو انسانی شرَف ووقار کے منافی ہوں، جیسے: جذام یا برص جیسی قابلِ نفرت بیماریوں کا لاحق ہونا وغیرہ۔ نیز ہم ایسی روایات کو بھی رَد کرتے ہیں جو شانِ نبوت کے خلاف ہوں، جیسے: سیدنا ایوبؑ کے بارے میں یہ روایات کہ معاذ اللہ! انہیں ایسی بیماری لاحق ہوگئی تھی کہ لوگوں کو گھِن آتی تھی، اُن کے جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے اور انہیں کوڑے کے ڈھیر پر ڈال دیا گیا تھا، البتہ انبیاء پر مصائب ومشکلات اور آزمائشوں کا آنا شانِ نبوت کے خلاف نہیں ہے، حال ہی میں ایک مشہور واعظ نے کہا: ’’(معاذ اللہ) یوسفؑ کا منہ کالا کر کے انہیں گدھے پر بٹھاکر گھمایا گیا ‘‘۔ یہ شانِ نبوت کے خلاف ہے اور نبی کے بارے میں ایسے ریمارکس دینے سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے، تاریخ میں ہر طرح کی روایات مل جاتی ہیں، لیکن دینی مُسَلَّمَات کے خلاف روایات کو رَد کردیا جائے گا، ایسی ہی روایات کو ’’اسرائیلیات‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور موجودہ تحریف شدہ تورات میں انبیائے کرامؑ کے بارے میں ایسی کئی روایتیں ہیں جو شانِ نبوت کے خلاف ہیں، اُن کو رد کیا جائے گا۔
انبیائے کرام علیہم السلام پر وحی صُحُفِ سماوی اور کُتُبِ الٰہی کی صورت میں نازل ہوتی رہی، انبیائے کرام کے صحیفوں کی تعداد کے بارے میں روایات ہیں، لیکن قطعی تعداد ہمیں معلوم نہیں۔ معروف کتابیں چار ہیں: تورات، زبور، انجیل اور قرآنِ کریم۔ آج کل دستیاب انجیل میں تورات عہد نامۂ قدیم کے عنوان سے اور انجیل عہد نامہ جدید کے عنوان سے جمع ہے، دیگر انبیائے کرام کی طرف منسوب صحیفے بھی اس میں ہیں۔ قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کا آخری پیغامِ ہدایت ہے جو اُس کے آخری نبی اور رسول سیدنا محمد رسول اللہ ؐ پر نازل ہوا۔ گزشتہ انبیائے کرام کے صحیفے اُن انبیائے کرام کو یاد تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا وعدہ نہیں فرمایا اور اپنے ذمۂ کرم پر نہیں لیا، بلکہ اُن امتوں پر چھوڑ دیا اور وہ اُن کی حفاظت نہ کرسکے، بلکہ اُن میں لفظی اور معنوی تحریف کرتے رہے، اس کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے، شاید اس میں باری تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ ان کُتبِ الٰہی کی شریعت محدود مدت کے لیے ہے اور لامحدود زمانوں کے لیے اُن کی حفاظت منشائے خداوندی نہیں ہے، جبکہ قرآنِ کریم کی شریعت اب تاقیامت جاری وساری رہے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اور اس کی یہ شانِ اعجاز ہے کہ دسیوں بیسیوں لاکھ کی تعداد میں اس کے حفاظِ کرام آج بھی موجود ہیں اور تاقیامت رہیں گے۔ گزشتہ انبیائے کرام کے دستیاب صحیفوں کے بارے میں ہمارے لیے قاعدۂ کلیہ یہ ہے: اُن میں جو بات قرآنِ کریم کے مطابق ہے، ہم اُن کی تصدیق کرتے ہیں اور جو بات قرآنِ کریم کے خلاف ہے، ہم اُسے ردّکرتے ہیں اور جو باتیں نہ قرآنِ کریم کے موافق ہیں اور نہ مخالف، ہم اُن کے بارے میں سکوت اختیارکرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں: اپنے اپنے ادوار میں اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے انبیائے کرام پر جو کلام نازل کیا تھا، وہ حق ہے۔
سابق سطور میں گزر چکا ہے کہ ’’نَبِیٌّ‘‘ کے معنی ہیں: ’’غیب کی خبریں دینے والا ‘‘، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (۱) ’’یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، جنہیں اس سے پہلے نہ آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم کے لوگ، (ہود: 49)‘‘۔ (۲) سیدہ مریم، سیدنا زکریا اور یحییٰ علیہما السلام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ’’یہ غیب کی بعض خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں اور آپ (اس وقت) اُن کے پاس نہ تھے جب وہ (قرعہ اندازی کے لیے) اپنی قلموں کو ڈال رہے تھے کہ اُن میں سے مریم کی کفالت کون کرے گا اور آپ اُن کے پاس نہ تھے جب وہ باہم جھگڑ رہے تھے، (آل عمران: 44)‘‘۔ (۳) سیدنا یوسفؑ کے واقعے کے تناظر میں فرمایا: ’’یہ غیب کی بعض خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں اور آپ ان کے پاس نہ تھے جب وہ سازش کر رہے تھے اور اپنے پروگرام پر عمل کرنے کا پکا ارادہ کرلیا تھا، (یوسف: 102)‘‘۔ سو نبی کا کام ہی غیب کی خبریں دینا ہے، جیسے جنت وجہنم، جزا وسزا، ملائک وجنّات اور دیگر امور کے بارے میں خبریں دینا۔ قرآنِ کریم میں علمِ غیب کے اعتبار سے دو طرح کی آیتیں ہیں: ایک وہ جن میں غیر اللہ سے غیب کی نفی ہے، جیسے: ’’کہہ دیجیے: آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور انہیں یہ (بھی) نہیں معلوم کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے، (النمل: 65)‘‘۔ اس طرح کی اور بھی آیات قرآنِ کریم میں موجود ہیں۔ دوسری آیات وہ ہیں جن میں انبیائے کرام کو غیب پر مطلع کرنے کا بتایا گیا ہے، فرمایا: ’’وہ ہر غیب کا جاننے والا ہے، سو وہ اپنے ہر غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا، ماسوا اُن کے جن کو اس نے پسند فرمالیا ہے جو اس کے (سب) رسول ہیں، (نوح: 26-27)‘‘۔ (۲) ’’اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہیںغیب پر مطلع کرے، ہاں! اللہ (غیب پر مطلع کرنے کے لیے) اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے چُن لیتا ہے، (آل عمران: 179)‘‘۔ قرآنِ کریم کی ایک معجزانہ شان اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے: ’’توکیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ (قرآن) اللہ کے غیر کی طرف سے ہوتا تو وہ ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے، (النساء: 82)‘‘۔ پس جب بظاہر آیات میں تعارض نظر آئے، اس میں تطبیق کی جاتی ہے اور علمِ غیب کے حوالے سے اثبات ونفی کی آیات میں تطبیق یہ ہے کہ جن آیات میں علمِ غیب کو اللہ تعالیٰ کی صفتِ خاصّہ بتایا گیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی ذات سے سب غیوب کو جانتا ہے اور جن آیات میں انبیائے کرام کے لیے غیب کا اثبات کیا گیا ہے، ان سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی عطا سے جانتے ہیں اور علمِ منطق کا اصول یہ ہے کہ جب بظاہر تناقض نظر آئے، لیکن نفی اور اثبات کی جہتیں مختلف ہوں تو وہ در حقیقت تناقض نہیں ہوتا۔
نبی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے دعوائے نبوت کی صداقت کی دلیل کے طور پر لوگوں کے سامنے معجزہ پیش کرتا ہے، معجزے کو قرآنِ کریم میں آیت، بَیِّنَہ اور برہان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ معجزے سے مراد یہ ہے کہ مدّعیِ نبوت کی ذات سے ایسے امر کا صدور ہو جو خارقِ عادت ہو یا مُحالِ عادی ہو اور نبی اُسے تحدّی کے طور پر پیش کرے اور لوگ اس کے مقابلے سے عاجز آجائیں، یعنی معجزات مُحالِ عقلی نہیں ہوتے، بلکہ مُحالِ عادی ہوتے ہیں۔ خارقِ عادت سے مراد یہ ہے کہ عام حالات میں عادتاً ایسا نہیں ہوسکتا، مثلاً: یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص فضا میں اڑنے لگے، اگر کوئی کہے کہ آج تو انسان ہوائی جہازوں اور راکٹوں میں بیٹھ کر فضائوں میں اڑ رہا ہے، تو یہ مادّی طاقت اور اسباب کا کرشمہ قرار پائے گا، معجزہ ہرگز نہیں۔
قرآنِ کریم میں انبیائے کرام کے معجزات کا ذکر موجود ہے: (۱) ’’اورہم نے قومِ ثمود کی طرف اُن کی برادری سے صالح کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، بے شک تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے روشن دلیل آئی ہے، یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی ہے، سو اِسے چھوڑ دو اللہ کی زمین میں چرتی رہے (خبردار!) اسے برائی کی نیت سے چھونا بھی نہیں ورنہ تمہیں دردناک عذاب گرفت میں لے لے گا، (الاعراف: 73)‘‘۔
(۲) ’’اور ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ تم اپنا عصا (زمین پر) ڈال دو، تو وہ اچانک جادوگروں کی فریب کاری کو نگلنے لگا، (الاعراف: 117)‘‘۔ (۳) ’’فرمایا: اے موسیٰ! اس (عصا) کو ڈال دو، پس موسیٰ نے اُسے ڈال دیا تو وہ اچانک ایک دوڑتا ہوا سانپ تھا، فرمایا: اسے بے خوف ہوکر پکڑ لو، ہم ابھی اس کو پہلی صورت کی طرف لوٹادیں گے اور اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ملالیں تو وہ بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا، یہ دوسری نشانی ہے، (طہٰ: 19-22)‘‘۔ (۴) ’’اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا (یہ کہتا ہوا:) میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں، میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کا ایک مجسمہ بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے اڑنے لگے گا، نیز میں اللہ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور برص کے بیمار کو شفا دیتا ہوں اور مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو، بے شک ان سب چیزوں میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم مومن ہو، (آل عمران: 49)‘‘۔ (۵) ’’اور بے شک ہم نے داود پر اپنا فضلِ عظیم فرمایا (اور حکم فرمایا:) اے پہاڑو اور پرندو! تم دائود کے ساتھ تسبیح کرو اور ہم نے اُن کے لیے لوہے کو نرم کردیا تھاکہ آپ کشادہ زِرہیں بنائیں اور توازن کے ساتھ اُن کی کڑیاں جوڑیں، (سبا: 10-11)‘‘۔ (۶) ’’اور ہم نے ہوا کو سلیمان کے تابع فرمان بنادیا، وہ صبح وشام ایک ایک ماہ کی مسافت طے کرتے اور ہم نے اُن کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بنا دیا اور ہم نے بعض جنّات کو اُن کے تابع کردیا کہ وہ اپنے رب کے حکم سے اُن کے سامنے کام کرتے تھے، (سبا: 12)‘‘۔ عام طور پر ہوا قدرت کے تکوینی نظام کے تحت چلتی ہے، اس کی رفتار اور اس کا رُخ اُسی نظام کے تابع ہوتا ہے، پس ہوا کے سلیمانؑ کے تابع فرمان ہونے کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ جدھر کا حکم دیتے، ہوا اپنا رُخ ادھر پھیر دیتی اور یہی معجزہ ہے۔
باقی صفحہ7نمبر1
مفتی منیب الرحمن
متکلمین نے اس پر بحث کی ہے کہ آیا معجزہ نبی کے اختیار میں ہوتا ہے یا نبی اس میں بے اختیار ہوتا ہے، اس بارے میں دو آراء ہیں، ہماری مختار رائے یہ ہے کہ قرآن ہمارے نبی کریم ؐ کا سب سے بڑا معجزہ ہے، چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے، اس لیے نبی کے قدرت واختیار میں نہیں ہے، اسی طرح واقعۂ معراج آپ ؐ کا سب سے عدیم المثال اور عقلِ انسانی کو حیران کردینے والا معجزہ ہے، یہ اللہ کے حکم کے تابع تھا۔ معجزے کے مقدور ہونے کے معنی یہ ہیں: چاہے تو اسے ظاہر کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ انبیائے کرامؑ کے عام معجزات اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قدرت سے اُن کے اختیار میں ہوتے ہیں، چنانچہ نبی کریم ؐ نے سانپ کے کاٹے اور آشوبِ چشم کے مریض کو اپنا لعابِ دہن لگا کر شفا بخشی، آنکھ کے باہر نکلے ہوئے ڈھیلے کو دوبارہ اپنے مقام پر پیوست کردیا اور نظر پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی، آپ نے ایک لاٹھی پکڑائی تو وہ تلوار بن گئی، کڑوے پانی میں لعابِ دہن ڈالا تو وہ میٹھا ہوگیا، ہنڈیا میں لعابِ دہن ڈالا تو سیکڑوں افراد اس سے شکم سیر ہوگئے، تھوڑے سے دودھ سے ستر صحابہ کو سیراب کردیا، درخت کو حکم دیا تو وہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر چلا آیا، وغیرہ۔ کسی چیز کے بے اختیار ہونے کی مثال یہ ہے: کاتب اپنے قلم ہی سے لکھتا ہے، لیکن قلم کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے، کاتب جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے لکھ لیتا ہے اور اس کا ارادہ نہ ہو تو قلم ساکن ہوجاتا ہے، مگر نبی اپنے معجزات میں اس طرح بے اختیار نہیں ہوتے، وہ اللہ کے دیے ہوئے اختیار سے تصرّف کرتے ہیں اور معجزات ظہور میں آتے ہیں۔