جہاد، کشمیر اور عمران خان

809

پاکستان کے حکمران طبقے نے طے کیا ہوا ہے کہ وہ اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی توہین اور تذلیل کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ پاکستان کے حکمرانوں کے چہرے بدلتے ہیں مگر اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے ان کا موقف نہیں بدلتا۔ اس سلسلے میں عمران خان کا ’’کمال‘‘ یہ ہے کہ وہ ریاست مدینہ کا ذکر کرکے ریاست مدینہ کے تشخص پر حملہ کرتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ان کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ کشمیریوں کی مدد کے لیے جہاد اور وہاں فوج بھیجنے کی باتیں کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا چاہتا ہے کہ پلوامہ جیسا واقعہ ہو اور وہ پاکستان پر حملہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کشمیریوں کو اقوام متحدہ کے ذریعے حق خود ارادیت دلا کر رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو دھوکا دیا گیا ہے۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 29 اکتوبر 2019ء)
مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ انہوں نے جہاد کے ذریعے عظیم الشان فتوحات حاصل کیں اور تقوے اور علم کے ذریعے انہوں نے مفتوحہ قوموں کے قلوب اور اذہان کو مسخر کیا۔ مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی مثال رسول اکرمؐ کا اسوئہ حسنہ ہے۔ رسول اکرمؐ کی دس سالہ مدنی زندگی میں 60 سے زیادہ جہادی معرکے اور سرایہ وقوع پزیر ہوئے۔ اس اعتبار سے رسول اکرمؐ کی دس سالہ مدنی زندگی میں ہر سال مسلمانوں نے دو جنگیں لڑیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ ہی میں پورا جزیرہ نما عرب فتح ہوگیا۔ جہاد کا یہ سلسلہ خلافت راشدہ کے دور میں بھی جاری رہا۔ سیدنا عمرؓ کے دور میں مسلمانوں نے وقت کی دو سپر پاورز کو گرایا۔ بلاشبہ مسلمانوں کے لیے جہاد ایک ’’حکمتِ عملی‘‘ بھی ہے اور ’’اسلوب حیات‘‘ بھی۔ رسول اکرمؐ کے ایک ارشاد مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کا جہاد ہی ان کی ترک دنیا ہے۔
خلافت راشدہ کے بعد بھی مسلمانوں نے عسکری مزاحمت کے میدان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے۔ محمد بن قاسم نے صرف 12 ہزار فوجیوں کے ساتھ سندھ فتح کیا اور راجا داہر کی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل فوج کو شکست دی۔ مسلم اسپین کے بانی طارق بن زیاد تھے اور انہوں نے صرف 17 ہزار فوجیوں کے ذریعے اسپین کے ایک بڑے حصے کو فتح کرکے مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر نے بھی صرف 8 سے 10 ہزار فوجیوں کے ساتھ ہندوستان فتح کیا اور مغل سلطنت کی عمارت تعمیر کی۔
چنگیز خان ایک طوفان بلاخیز تھا اور بغداد کے خلیفہ تک نے اس کی مزاحمت سے انکار کردیا مگر جلال الدین خوارزم شاہ تن تنہا کئی سال تک چنگیز خان کی مزاحمت کرتا رہا۔ اس نے کئی معرکوں میں چنگیزی لشکر کو شکست دی۔ ایک بار چنگیزی لشکر نے جلال الدین خوارزم کو گھیر لیا۔ جلال الدین کے پاس دو ہی امکانات تھے۔ خود کو چنگیز کے حوالے کردے یا پہاڑ سے گھوڑے سمیت سامنے موجود دریا میں چھلانگ لگا کر زندگی کو خطرے میں ڈالے۔ جلال الدین نے یہاں بھی مزاحمت کی روح کو بیدار رکھا۔ اس نے سرنڈر اور یوٹرن لینے کے بجائے دریا میں چھلانگ لگادی۔ اس موقع پر چنگیز نے کہا کہ شاید ہی کسی ماں نے جلال الدین جیسے بیٹے کو جنم دیا ہو۔ عمران خان فرماتے ہیں کہ پاکستان بہادر شاہ ظفر کے راستے پر نہیں ٹیپو سلطان کے راستے پر چلے گا۔ مگر وہ بہرحال ٹیپو کے راستے پر نہیں چل رہے۔ ٹیپو نے تن تنہا تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑنے کی کوشش کی اور اگر انہیں گھر کے بھیدیوں کا سامنا نہ ہوتا تو وہ انگریزوں کو شکست دے کر دکھا دیتے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں اگرچہ ہندو بھی شریک تھے مگر یہ جنگ آزادی اصل میں مسلمانوں کی جنگ آزادی تھی۔ مغربی دانش ور ولیم ڈال رمپل نے اپنی تصنیف ’’دی انارکی‘‘ میں لکھا ہے کہ ہندوستان کے ہندو مہاجن اور مار واڑی ایسٹ انڈیا کمپنی کو سرمایہ فراہم کرنے اور ہندوستان کو بہت سستا فروخت کرنے کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کررہے تھے۔ یہ صرف ہندوستان کے مسلمان تھے جو انگریزوں کی مزاحمت کررہے تھے۔ مزاحمت کرنے والوں میں سراج الدولہ بھی تھے اور ٹیپو سلطان بھی۔ بلاشبہ ان کی کوئی مزاحمت اور کوئی جہاد کامیاب نہ ہو سکا مگر مسلمانوں کی مزاحمت نے مسلمانوں میں جہاد اور مزاحمت کی روح کو زندہ رکھا۔ مسلمانوں کی قوت مزاحمت زندہ نہ ہوتی تو تحریک پاکستان برپا ہوتی نہ اقبال پاکستان کا خواب دیکھتے اور نہ قائد اعظم اس کے لیے عملی جدوجہد کرتے۔ یہ جو کچھ بھی تھا برصغیر کے مسلمانوں کی مزاحمتی روح کی برکت سے تھا۔ جہاں مزاحمتی روح نہیں تھی وہاں تو سناٹے کا راج تھا۔ پاکستان 1947ء میں بنا اور 1946ء تک پنجاب پر یونینسٹوں کا قبضہ تھا اور یونینسٹ ایک جانب ہندوئوں کے دوست تھے اور دوسری جانب انگریزوں کے آلہ کار تھے۔ صوبہ سرحد پر سرحدی گاندھی کا قبضہ تھا اور بلوچستان سرداروں کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا اور قائد اعظم کی خصوصی کوششوں سے پاکستان کا حصہ بنا۔
عمران خان افغانستان ہی کی مثال لے لیں۔ افغانستان میں جہاد نے وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرایا ہے۔ مگر عمران خان اور ان کی پشت پناہ اسٹیبلشمنٹ کو نہ اس بات کی فکر ہے کہ جہاد اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم اور رسول اکرمؐ کی عظیم الشان سنت ہے۔ نہ انہیں جہاد کی کامیابیاں نظر آتی ہیں بلکہ وہ جہاد کو اُلٹا کشمیریوں اور پاکستان سے دشمنی قرار دے رہے ہیں۔
یہاں چلتے چلتے ہمیں کشمیر کی تاریخ پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے۔ آج پاکستان کے پاس جو کشمیر ہے وہ قبائلیوں کے جہاد یا ان کی مزاحمت کا حاصل ہے ورنہ پاکستان کے حکمران تو بھارت سے آزاد کشمیر کا ایک انچ بھی نہیں لے سکتے تھے۔ آج پاکستان کشمیر کی جس تحریک آزادی پر انحصار کررہا ہے وہ بھی جہاد کے تجربے کا حاصل ہے۔ ورنہ کشمیریوں کی تاریخ مسلح مزاحمت کی تاریخ نہیں ہے۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی پر جہادی روح موجود نہ ہوتی تو یہ جدوجہد چند سال جاری رہ کر ختم ہوجاتی۔ کشمیری، کشمیر میں پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ لگاتے ہیں اور یہ نعرہ اپنی اصل میں ایک انقلابی اور ایک جہادی نعرہ ہے۔ اس تناطر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کی تاریخ کے بہترین حصے پر جہاد کا سایہ ہے مگر عمران خان اور ان کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ جہاد کو پاکستان دشمنی پر محمول کر رہی ہے۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو سوال یہ ہے کہ ہماری فوج اگر کشمیر میں مداخلت کرکے کشمیریوں کے کام نہیں آسکتی تو پھر یہ فوج کر ہی کیا سکتی ہے؟ کشمیر ہماری شہ رگ ہے ہمارا سارا دفاعی بجٹ کشمیر مرکز ہے۔ اس کے باوجود فوج کشمیر میں مداخلت سے گریزاں ہے۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ پلوامہ طرز کا حملہ ہوا تو بھارت کو پاکستان پر حملے کا جواز مل جائے گا۔ تو کیا بھارت پاکستان پر حملے کے لیے پلوامہ طرز کے حملے کا محتاج ہے۔ کیا 1965ء کی جنگ پلوامہ طرز کے حملے کا نتیجہ تھی؟ کیا بھارت نے مشرقی پاکستان میں اس لیے مداخلت کی تھی کہ پاکستان نے پلوامہ طرز کا حملہ کرادیا تھا؟ بھارت جنوبی ایشیا کا شیطان ہے اسے پاکستان پر حملے کے لیے کسی جواز کی ضرورت نہ ہوگی۔ بھارت کو معلوم ہے امریکا اور یورپ اس کے ساتھ ہیں۔ چناں چہ جس دن بھارت مناسب سمجھے گا پاکستان پر چڑھ دوڑے گا۔ کیا عمران خان اور ان کے پشت پناہ اس کے باوجود بھی بھارت کے مقابلے سے گریز کریں گے۔ کیا وہ کہیں گے کہ ابھی بھارت نے لاہور یا اسلام آباد پر قبضہ تھوڑی کیا ہے؟ ابھی بھارت سے لڑنے کا کیا فائدہ؟ پاکستان میں ایک معقول شخص بھی ایسا نہیں جسے بھارت سے جنگ کا ’’شوق‘‘ لاحق ہو۔ البتہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر جنگ کے خوف میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔ چناں چہ وہ کبھی بھارت پر تقریر کا بم گراتے ہیں، کبھی بیان کا گولہ داغتے ہیں۔ یہ صورتِ حال بتا رہی ہے کہ موجودہ حکمران طبقہ صرف گفتار کا غازی ہے، کردار کا غازی نہیں۔ اس منظرنامے میں پاکستان اور کشمیریوں سے دشمنی کا پورا چارٹر موجود ہے۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ سے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلا کر رہیں گے۔ ایک جانب عمران خان کہتے ہیں کہ کشمیر کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کی خاموشی ہے اور دوسری جانب انہیں اقوام متحدہ سے توقع ہے کہ وہ کشمیریوں کو آج نہیں تو کل ضرور حق خود ارادیت دے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کسی ’’مسلم کاز‘‘ کے ساتھ نہیں۔ وہ نہ کشمیریوں کے ساتھ ہے نہ فلسطینیوں کے ساتھ ہے، اسے نہ برما کے مسلمانوں سے ہمدردی ہے، نہ شام کے مسلمانوں سے کوئی واسطہ ہے۔ اقوام متحدہ مظلوم مسلمانوں کے حوالے سے نیند کی گولیوں کی پوری شیشی کھا کر سوئی ہوئی ہے۔ چناں چہ اقوام متحدہ سے کشمیر کے سلسلے میں کوئی توقع وابستہ کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ بدقسمتی سے عمران خان ہر معاملے ہی میں حماقت پر حماقت کیے چلے جارہے ہیں۔ کشمیر کے سلسلے میں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی ناکردگی کا یہ عالم ہے کہ مودی کو پاکستان کی فضائی حدود سے دور رکھنے کی خبر ٹیلی ویژن چینلوں پر اس طرح چلائی جاتی ہے جیسے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ نے کشمیر فتح کرلیا ہو۔