ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کاتعلیمی اور علمی سفر

753

عبدالحکیم غوری
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ اقبال کے آباؤ اجداد قبول اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے اختتام یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے۔ میر حسن کے زیراثر اقبال کے دل میں سرسید کی محبت پیدا ہو گئی جو بعض اختلافات کے باوجود آخر دم تک قائم رہی۔ مسلمانوں کی خیرخواہی کا جذبہ تو اقبال کے گھر کی چیز تھی۔ مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی۔ قدرت نے انہیں صوفی اور عقل مند باپ اور عالم استاد عطا کیا جس سے ان کا دل اور عقل یکسو ہو گئے۔ دونوں کا ہدف ایک ہی ہو گیا۔ یہ جو علامہ اقبال کے یہاں حسن اور فکر کی نادر یکجائی نظر آتی ہے اس کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے۔
16 برس کی عمر میں علامہ اقبال نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویڑن میں پاس کیا۔ تمغہ اور وظیفہ ملا۔ 1899 ء میں اقبال نے ایف اے کیا اور مزید تعلیم کیلئے لاہور آ گئے۔ یہاں گورنمنٹ کالج میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا۔ انگریزی‘ فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کئے۔ انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھے اور عربی پڑھنے کیلئے اورینٹل کالج جاتے جہاں فیض الحسن سہارنپوری? جیسے بے مثال استاد موجود تھے۔ علامہ اقبال تقریباً 4 سال تک اورینٹل کالج میں رہے البتہ 6 ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی اعلیٰ تعلیم کیلئے کینیڈا یامریکہ جانا چاہتے تھے مگر آرنلڈ کے کہنے پر اس مقصد کیلئے انگلستان اور جرمنی کا انتخاب کیا۔
1903ء میں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے اقبال کا گورنمنٹ کالج میں تقرر ہوا۔ بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے۔ 25 دسمبر1905 ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان گئے۔ ابھی یہاں آئے ہوئے ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لئے لنکنزان میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل استاد سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ سرعبدالقادر بھی یہیں تھے۔ اسی زمانے میں کیمرج کے استادوں میں دانت ہید، میگ میگرٹ، وارڈ، براؤن اور نکلس جیسی نادر اور شہرہ آفاق ہستیاں بھی شامل تھیں۔ براؤن اور نکلس عربی اور فارسی زبانوں کے ماہر تھے۔ آگے چل کر نکلس نے اقبال کی فارسی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا انگریزی ترجمعہ بھی کیا جو اگرچہ اقبال کو پوری طرح پسند نہیں آیا، مگر اس سے انگریزی خواں یورپ کے شعری اور فکری حلقوں میں اقبال کے نام اور کام کا جزوی تعارف ہو گیا۔
میونخ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کیلئے رجسٹریشن کروائی تاکہ جرمن زبان سیکھ کر میونخ یونیورسٹی میں اپنے تحقیقی مقالے کے بارے میں اس زبان کی تیاری ہو جائے۔ یہاں 4 ماہ گزرے تھے کہ ایران میں مابعد الطبعیات کا ارتقا کے عنوان سے اپنا جوتحقیقی مقابلہ وہ پہلے ہی داخل کرا چکے تھے۔ اس پر2 نومبر 1908 ء کو میونخ یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ دی۔ ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آئے۔ بیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کر دی جو لائی 1908 ء کو نتیجہ نکلا کامیاب قرار دئے گئے۔ وطن آنے کیلئے روانہ ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کردی۔ البتہ بعد میں حکومت پنجاب کی درخواست اور صرار پر 10 مئی1910 ء سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کر دیا، لیکن ساتھ وکالت بھی جاری رکھی۔
وقت کے ساتھ مصروفیات بڑھتی گئیں۔ کئی اداروں اور انجمنوں سے تعلق پیدا ہو گیا۔ ایک گورنمنٹ کالج ہی نہیں بلکہ پنجاب اور برصغیر کی کئی جامعات کے ساتھ بھی اقبال کا تعلق پیدا ہو گیا۔ لالہ رام پرشاد پروفیسر تاریخ‘ گورنمنٹ کالج لاہور کے ساتھ مل کر نصاب کی ایک کتاب تاریخ ہند مرتب کی۔ آگے مختلف اوقات میں اورینٹل اینڈ آرٹس فیکلٹی اور سنڈیکیٹ کے ممبر بھی رہے۔ 1919 ء کو اورینٹل فیکلٹی کے ڈین بھی بنائے گئے۔ 1923 ء میں یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی اس دوران پنجاب ٹیکسٹ بک کمپنی کے بھی رکن رہے۔ 1923 ء میں انہیں سر کا خطاب ملا۔
پنجاب یونیورسٹی سے اقبال عملاً 1923 ء تک متعلق رہے۔ 1930 ء میں صدر مسلم لیگ(جناح) کی عدم موجودگی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس الہ آباد کی صدارت علامہ اقبال نے کی۔ علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطاب میں ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں فرمایا میں اس بات کا خواہشمند ہوں کہ پنجاب شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ، بلوچستان میں مسلمانوں کی آزاد مملکت قائم کی جائے۔ وہ خواب جسے علامہ اقبال نے دیکھا جو پوری ملت کی امنگوں اور آرزو کی علامت بن گیا۔
علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے۔ آپ کی شاعری ہمیشہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہی رہے گی۔یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان برصغیر اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے ہیں اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کی کئی کتب کے انگریزی‘ جرمنی‘ فرانسیسی‘ جاپانی‘ چینی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔