اقبال ؒکی عظمت

1067

اعجازالحق اعجاز
علامہ محمد اقبال اردو اور فارسی کے وہ عظیم شاعر اور دانش ور ہیں جن کی عظمت کا لوہا مشرق و مغرب میں مانا جاتا ہے۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی شاعری اور فکر و فلسفہ پر سب سے زیادہ تحقیقی کا م ہوا ہے۔ ان پر دنیا بھر میں لگ بھگ دو سو کے قریب پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جا چکے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر بھارت میں لکھے گئے ہیں۔ اس قدر مقبولیت اور پذیرائی اردو کے کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔ یہ سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ شعر و فکر اقبال کی بہت سی جہات ہیں جن پر کام ہونا ابھی باقی ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پر اقبال کے خلاف کچھ لوگ ایک منظم سازش کے تحت ایک گھنائونی مہم چلا رہے ہیں مگر اس قسم کی تنقید سے اقبال کی مقبولیت میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ اس قسم کی تنقید کا علمی معیار بے حد پست ہے۔ ان لوگوں کے اٹھائے گئے اعتراضات خود زبان حال سے اپنے بودے پن اور مضحکہ خیزی کا اعلان کرتے ہیں۔ انھیں پڑھ کر ان لوگوں کی کم نگہی پر بے ساختہ ہنسی آتی ہے اور ولیم شیکسپئیر کا یہ فقرہ فوراً ذہن میں آتا ہے کہ جو لوگ غصے اور نفرت سے بات کرتے ہیں وہ کچھ نہیں کہتے۔ یہ لوگ اقبال کو پڑھے اور سمجھے بغیر ہی داد ِ تحقیق دے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بزعم خود دانش ور اقبال پر تنقید کر رہے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے جاوید نامہ پڑھا ہے تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔خیر ان لوگوں کا ذکر برسبیل تذکرہ آگیا ہے اقبال کو ہر عہد میں دنیا بھر سے ایسے عظیم محقق اور نقاد میسر آئے ہیں جنھوں نے اقبال شناسی کا حق ادا کر دیا ہے۔ آر۔اے نکلسن نے اقبال کی عظمت کا اعتراف یوں کیا ہے:
Iqbal comes forward as an apostle, if not to own age, then to posterity.
جرمنی ایک مردم خیز خطہ ہے۔ اس کی ایک عظیم سکالر این میری شمل اقبال کی بہت مداح تھیں۔ انھوں نے اقبال پرایک گراں قدر کتاب Gabriel’s Wing کے نام سے لکھی۔ اس میں وہ اقبال کو یوں خراج تحسین پیش کرتی ہیں:
Iqbal is an ideal example of what history of religion calls a prophetic type of experience.
ایران میں ملک الشعرا محمد تقی بہار کو عہد جدید کا ایک بہت بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ اقبال کے بہت مداح تھے۔ انھوں نے اقبال کی عظمت کا اعتراف یوں کیا ہے:
’’قرن حاضر خاصہ اقبال گشت/واحدے کز صد ہزاراں بر گزشت‘‘
اردو کے نامور شاعر اور نقاد فراق گورکھپوری نے اقبال کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا :
’’دنیا کی قدیم سے قدیم شاعری سے لے کر آج تک کی شاعری مٰیں جو کئی زبانوں پر مشتمل ہے اس کا اونچے سے اونچا لہجہ اور اس کی انتہائی بلندی سب کچھ اقبال کے اردو اور فارسی کلام میں مل جاتی ہے اور دنیا کے بڑے سے بڑے شاعروں کے یہاں جو خوبیاں ہیں وہ اقبال کے یہاں موجود ہیں‘‘۔
ترقی پسند نقاد مجنوں گورکھپوری نے اقبال کے بارے میں لکھا ہے :
’’جہاں تک الفاظ اور ترکیبوں کے حسن انتخاب کا تعلق ہے اقبال ہم کو جدید شعرائے اردو میں سب سے زیادہ ممتاز نظر آتے ہیں‘‘۔
مشہور ترقی پسند نقاد احتشام حسین نے اقبال کو اردو ادب کے سرمایے کا سب سے بیش بہا موتی قرار دیا ہے۔
جب کہ سلیم احمد کے بقول:
’’غالب نقش اول ہے اور اقبال نقش ثانی، نقش ثانی کی برتری مسلم ہے۔ غالب نے جس چیز کی ابتدا کی تھی اقبال نے اسے انتہا تک پہنچا دیا‘‘۔
فیض احمد فیض جو اقبال کی عظمت کے دل سے قائل تھے اقبال کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اردو میں دو نظمیں لکھیں جن میں سے ایک ان کے پہلے مجموعہ کلام نقش فریادی میں شامل ہے۔ فیض نے کچھ مضامین بھی اقبال پر لکھے۔ ان میں سے ایک مضمون ’’ہماری قومی زندگی اور ذہن پر اقبال کے اثرات‘‘ کے عنوان سے بھی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:
’’ہماری قومی زندگی پر جس قسم کا تہیج اور جس قسم کا طلاطم اقبال کے افکار کی وجہ سے پیدا ہوا ہے وہ غالباً ان سے پہلے یا ان کے بعد کسی واحد مصنف، کسی واحد ادیب یا کسی واحد مفکر نے ہمارے اذہان میں پیدا نہیں کیا‘‘۔
اس کے بعد فیض اقبال کا موازنہ سرسید احمد خاں سے کرتے ہوئے سرسید کے اثر و نفوذ کو محدود جب کہ اقبال کے اثر ات کو عالم گیر قرار دیتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں:
’’اقبال نے ہماری قومی زندگی، خواہ وہ سیاست ہو، خواہ وہ اخلاقیات ہو، خواہ وہ مذہب ہو، خواہ وہ زندگی کا کوئی اور شعبہ اس میں تفکر اور تدبر کا ایک ایسا عنصر شامل کیا جو کہ پہلے موجود نہیں تھا۔اقبال نے بہت سی باتوں کے سوچنے کا، غور کرنے کا، مشاہدہ کرنے کا، مطالعہ کرنے کا، تجزیہ کرنے کا ڈھب سکھایا‘‘۔
یہ الفاظ کوئی سوشل میڈیائی دانشور نہیں کَہ رہا بلکہ اقبال کے بعد اردو کا سب سے بڑا شاعر کہہ رہا ہے۔ اقبال کی عظمت کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ ایک صدی ہونے کو آئی ہے، کیسے کیسے شاعر اور دانشور پیدا ہوئے ہیں، کیسی کیسی ادبی و فکری تحریکیں چلی ہیں، ادب نے کیسے کیسے ہنگامے دیکھے ہیں مگر اردو ادب اب تک ان سے بڑا شاعر ہی پیدا کر سکا ہے اور نہ ہی ان سے بڑا دانشور،جو اس قدر ارفع خیالات رکھتا ہو اور ان خیالات کو پیش کرنے کا اس قدر دل نشیں اور پر عظمت فن ہی جانتا ہو۔