اے راہ روانِ اہل وفا ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں

445

بنگلادیش کی متنازع ’’کرائمز ٹریبونل‘‘ عدالت نے جماعت اسلامی کے ایک اور سرکردہ رہنما کو موت کی سزا سنادی۔ یہ جماعت اسلامی بنگلادیش کے چھٹے لیڈر ہیں جن کو تخت دار کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان تمام رہنمائوں کا جرم اڑتالیس برس قبل پاکستان سے محبت کا رویہ تھا۔ جرم 1971ء میں جب سابق متحدہ پاکستان سے علیحدگی کے وقت ان رہنمائوں کا پاکستان کی حمایت تھا۔ جس وقت اظہر الاسلام کو گرفتار کیا گیا یعنی چند سال قبل وہ بنگلادیش کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی کے نائب سیکرٹری جنرل تھے۔ آج بنگلادیش میں جماعت اسلامی کے انتخابات میں حصہ لینے پر بھی پابندی عاید ہے۔
موت بانٹنے والی بنگلادیش کے اس نام نہاد متنازع انٹرنیشنل ٹریبونلز کی کارروائی پر ساری دُنیا میں تنقید ہوئی، اس کے طریقہ انصاف پر انگلیاں اُٹھائی گئیں، لیکن اس کی سزائوں کو روکا نہ جاسکا ۔ یہ بھی ایک تماشا تھا کہ جماعت اسلامی کے لیے خود وہ بنگالی نوجوان گواہی کے لیے کھڑا ہوا جس کے بھائی ’’بشابالی‘‘ کے 1971ء میں قتل کے جرم میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما دلاور حسین سعیدی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ بشابالی کا بھائی ’’شیخورانجن‘‘ پروفیسر غلام اعظم کے مقدمے کا بھی اہم گواہ تھا۔ لیکن اُسے اس مقدمے کے دوران عدالت سے اغوا کرکے کلکتہ کی ڈم ڈم جیل میں پہنچادیا گیا۔ اس وقت وہ عدالت میں گواہی دینے آیا تھا کہ 1971ء میں اس کا بھائی بشابالی کو قتل کیا گیا تھا لیکن اس واقعے سے پروفیسر غلام اعظم اور دلاور حسین سعیدی کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نہیں ہے۔
شیخورانجن نے اس وقت انکشاف کیا تھا کہ عدالت کے احاطے سے پولیس نے اُسے اغوا کیا، تھانے لے جا کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور بار بار دلاور حسین سعیدی کو بھائی کے قتل میں ملوث کرنے پر زور دیتے رہے۔ میرے انکار پر انہوں نے دھمکی دی کہ سعیدی کو تو پھانسی لگے گی تم بھی مارے جائو گے۔ اور وہی ہوا نام نہاد عدالت نے انہیں پھانسی دے دی۔اس وقت شیخورانجن کے بیان پر بھارتی حکام اور وزارت خارجہ نے خاموشی اختیار کیے رکھی تھی۔ شیخورانجن کے ڈھاکا کی عدالت سے اغوا اور کلکتہ کی ڈم ڈم جیل سے برآمدگی حسینہ واجد کی عالمی جرائم کی نام نہاد عدالتوں کے بارے میں بھارت، بنگلادیش گٹھ جوڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آج بھی اظہر الاسلام کے وکلا کے مطابق ان کے خلاف لگائے گئے الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ انصاف کے لیے اگر عدالتی کارروائی میں نظرثانی کی اپیل ناکام رہی تو انہیں بھی تختہ دار پر چڑھادیا جائے گا۔ اس خبر کا تحفہ لے کر حسینہ واجد نئی دہلی پہنچ گئی ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور وزارت خارجہ کو نا معلوم کب ہوش آئے گا۔ دسمبر قریب آتے ہی حسینہ واجد بھارت کے احکامات پر تختہ دار سجاتی ہے اور پاکستان سے محبت کا اکرام سجائے جماعت اسلامی کے رہنما تختہ دار کو پھولوں کی سیج سمجھتے ہیں، وہ مسکراتے ہوئے یوں اس کی طرف بڑھتے ہیں کہ جیسے وہاں سے انہیں جنت کی خوشبو آرہی ہو۔
2014ء میں بنگالی اخبار لکھتا ہے کہ جماعت اسلامی کے رہنما محمد قمرالزماں کو اُس کے رپورٹر نے دیکھا کہ جب انہیں تختہ دار کی طرف لے جایا جارہا تھا تو وہ اس تیزی سے پھانسی کے چبوترے کی طرف بڑھ رہے تھے گویا وہاں انہیں جنت کا منظر نظر آرہا ہو۔ ان کی تیز رفتاری کے باعث ساتھ چلنے والے ڈاکٹر، جیلر اور محافظ کو دوڑنا پڑ رہا تھا، جیل حکام حیران تھے، بھلا ایسا منظر انہوں نے پہلے کبھی کہاں دیکھا ہوگا کہ کوئی موت سے گلے ملنے کے لیے یوں دوڑ کر جائے۔ رپورٹر کہتا ہے کہ وہ باآواز بلند تلاوت کررہے تھے، اس وقت جب جلاد نے لیور کھینچا تو اُن کی زبان پر وہ آیات رواں تھیں جن میں خالق حقیقی شہیدوں کی شان بیان کرتے ہوئے ان کو ابدی زندگی کی نوید سناتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے پاکستان کی محبت میں بہتے خون کی قدر نہ کی۔ مودی علی الاعلان مکتی باہنی بنانے اور پاکستان کو توڑنے کا کارنامہ اپنے کاندھوں پر سجاتے نہیں تھکتا۔ یہاں یہ عالم ہے کہ حمایت میں ایک لفظ نہیں نکلتا، حالاں کہ 1972ء میں جنگی جرائم پر مقدمہ نہ چلانے کا سہہ فریقی معاہدہ موجود ہے۔ جس کی رو سے یہ مقدمات عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہیں، لیکن پاکستان نہ بنگلادیش حکومت سے احتجاج کررہا ہے، نہ اقوام متحدہ سے نوٹس لینے کے لیے کہہ رہا ہے۔ حالاں کہ 1971ء میں بنگلادیش مشرقی پاکستان تھا پاکستان کا مشرقی بازو۔انڈیا کا وزیراعظم اگر اعتراف کرتا ہے کہ بنگلادیش اس کی کوششوں سے وجود میں آیا تو مقدمہ تو انڈیا کے خلاف چلایا جانا چاہیے اقوام متحدہ کی عدالت میں۔ لیکن پاکستان مدعی بننے کے لیے تیار ہے نہ اہل وفا کی قدر کرنے کے لیے تیار ہے۔ آج اہل وفا لاوارث اور اجنبی ٹھیرائے گئے ہیں۔
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون ’’پاک نشیناں‘‘ تھا رزق خاک ہوا
آج نوجوان نسل کے سوالوں کے جواب کون دے گا، جو سوال پوچھتی ہے کہ آخر 1970ء میں اکثریت سے جیتنے والی عوامی لیگ کو حکومت بنانے کی دعوت کیوں نہیں دی گئی؟ بھٹو نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو پرزے پرزے کیوں کیا؟ بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنے فوجی کیسے داخل کیے؟ اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے نوے ہزار فوجیوں نے ہتھیار کیوں ڈالے؟۔ مشرقی پاکستان آزاد اور خود مختار پاکستان کا حصہ تھا، اُسے علیحدہ کرنے والی قوتوں کے خلاف مزاحمت دُنیا کے کسی بھی قانون کے خلاف جرم نہیں کہلاسکتی، کیا وہ اہل وفا جنہوں نے اپنے اور اپنے خاندان کی زندگیوں اور مستقبل کو دائو پر لگا کر جان کی بازی لگائی مجرم تھے؟۔ آج کیا بلوچستان میں آزاد بلوچستان کے حامی اسلحہ برداروں کے خلاف فوج کا ساتھ دینے والے کل خدانخواستہ غدار کہلائیں گے؟ اور پاکستان کے خود غرض اقتدار پسند انتظامیہ اور حکمران یوں ہی منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے رہیں گے۔