نبی اکرم وکی وفات پر صحابہ کا اضطراب

4063

نبی اکرمؐ کی خبر وفات کے بعد مسلمانوں کے جگر کٹ گئے، قدم لڑکھڑا گئے، چہرے بجھ گئے، آنکھیں خون بہانے لگیں۔ ارض وسما سے خوف آنے لگا، سورج تاریک ہوگیا، آنسو بہہ رہے تھے اور نہیں تھمتے تھے۔ کئی صحابہ حیران وسرگردان ہو کر آبادیوں سے نکل گئے۔ کوئی جنگل کی طرف بھاگ گیا۔ جو بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا، جو کھڑا تھا اس کو بیٹھ جانے کا یارانہ ہوا۔ مسجد نبوی قیامت سے پہلے قیامت کا نمونہ پیش کر رہی تھی۔ صدیق اکبرؓ تشریف لائے اور چپ چاپ حجرہ عائشہؓ میں داخل ہوگئے۔ یہاں رحمۃ العالمینؐ کی میت پاک پڑی تھی۔ صدیق اکبرؓ نے چہرہ اقدس سے کپڑا اٹھا کر پیشانی مبارک پربوسہ دیا اور پھر چادر ڈھک دی اور روکر کہا:
نبی اکرمؐ پر میرے ماں باپ قربان! آپ کی زندگی بھی پاک تھی اور موت بھی پاک ہے۔ واللہ! اب آپ پر دو موتیں وارد نہیں ہوںگی۔ اللہ نے جو موت لکھ رکھی تھی، آپ نے اس کا ذائقہ چکھ لیا اور اب اس کے بعد موت ابد تک آپ کا دامن نہ چھوسکے گی۔
جب صدیق اکبرؓ مسجدنبوی میں تشریف لائے۔ عمر فاروقؓ غایت بے بسی سے نڈھال کھڑے تھے اور بڑے درد وجوش سے اعلان کر رہے تھے کہ منافقین کہتے ہیں کہ محمدؐ انتقال فرما گئے ہیں۔ واللہ! آپ نے وفات نہیں پائی۔ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں موسیؑ کی طرح طلب کیے گئے ہیں جو چالیس روز غائب رہ کر واپس آ گئے تھے۔ اس وقت موسی کی نسبت بھی یہی کہا جاتا تھا کہ آپ وفات پا گئے ہیں۔ خدا کی قسم محمدؐ بھی انہیں کی طرح دنیا میں واپس تشریف لائیں گے اور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیں گے جو آپ پر وفات کا الزام لگاتے ہیں۔
صدیق اکبرؓ نے عمر فاروقؓ کا کلام سنا تو فرمایا: عمر! سنبھلو اور خاموش ہوجاؤ، جب عمر فاروقؓ اپنی وارفتگی میں بہے چلے گئے تو صدیق اکبر نہایت دانشمندی کے ساتھ ان سے الگ ہٹ گئے اور خود گفتگو شروع کر دی۔ جب حاضرین مسجد بھی عمرؓ کو چھوڑ کر ادھر متوجہ ہوگئے تو آپ نے پہلے حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا:
’’اے لوگو! تم میں سے جو شخص محمد کو پوجتا تھا وہ سمجھ لے کہ محمدؐ وفات پاگئے ہیں اور جو شخص خدا کا پرستار ہے، وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور وہ کبھی مرے گا نہیں اور یہ حقیقت خود قرآن پاک نے واضح کر دی ہے۔ ترجمہ: نہیں ہیں محمد مگر ایک رسول۔ ان سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ کیا اگر وہ مرجائیں یا شہید ہوجائیں تو تم دین سے برگشتہ ہو جاؤ گے؟ جو شخص برگشتہ ہو جائے گا، وہ اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا اور اللہ عن قریب شکر گزاروں کو جزا دے گا‘‘۔ (آل عمران 144)
اس آیت پاک کو سن کر تمام مسلمان چونک پڑے۔ عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! ہم لوگوں کو ایسا معلوم ہوا کہ یہ آیت اس سے پہلے نازل ہی نہیں ہوئی تھی۔ عمرؓ فرماتے ہیں کہ ابوبکرؓ سے یہ آیت سن کر میرے پاؤں ٹوٹ گئے اور کھڑے رہنے کی قوت باقی نہیں رہی تھی، میں زمین پر گر پڑا اور مجھ کو یقین ہوگیا کہ واقعی محمدؐ رحلت فرما گئے ہیں۔
سیدہ فاطمہؓ غم سے نڈھال تھیں اور فرما رہی تھیں: ’’پیارے باپ نے دعوت حق کو قبول کیا اور فردوس بریں میں نزول فرمایا۔
آہ! وہ کون ہے جو جبرائیل امیں کو اس حادثۂ غم کی اطلاع کر دے۔
الٰہی! فاطمہ کی روح کو محمدؐ کی روح کے پاس پہنچا دے۔ الٰہی! مجھے دیدار رسول کی مسرت عطا فرما دے۔
الٰہی! مجھے اس معیت کے ثواب سے بہرہ ور کر دے۔ الٰہی! مجھے رسول امیں کی شفاعت سے محروم نہ رکھنا‘‘۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے دل و جان پر غم کی گھٹائیں چھا گئی تھیں اور زبان اخلاق پیغمبری کی ترجمانی کر رہی تھی: ’’حیف، وہ نبی جس نے تمول پر فقیری کو چن لیا، جس نے تونگری کو ٹھکرا دیا اور مسکینی قبول کر لی۔
آہ! وہ صاحب خلق عظیم جو ہمیشہ آٹھوں پہر نفس سے جنگ آزما رہا۔
آہ! وہ اللہ کا پیغمبر جس نے ممنوعات کو کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔
آہ! وہ رحمۃ العالمیں جس کا باپ فیض فقیروں اور حاجت مندوں کے لیے کھلا رہتا تھا، جس کا رحیم دل اور پاک ضمیر کبھی دشمنوں کی ایذا رسانی سے غبار آلود نہ ہوا۔
جس کے موتی جیسے دانت توڑے گئے اور اس نے پھر بھی صبر کیا۔
جس کی پیشانی انور کو زخمی کیا گیا اور اس نے پھر بھی دامن عفو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
آہ! کہ آج اسی وجود سرمدی سے ہماری دنیا خالی ہے۔