نبی رحمت کا رعب و دبدبہ

411

عبدالکریم عابد
واقعہ یہ ہے کہ بعثت نبویؐ سے پہلے دنیا پر ایک عام اقتصادی پسماندگی اور معاشی جمود کا غلبہ تھا اور سب سے برا حال عربوں کا تھا۔ تجارت پر قریش کی اجارہ داری تھی اور قریش ہی تمام عرب قبائل پر معاشی خدائی بھی کرتے تھے، اس کا سبب عربوں کا مشرکانہ نظام تھا۔ ہر قبیلے کا بت جدا تھا۔ اس طرح عرب کوئی قومی وجود نہیں رکھتے تھے۔ لیکن جب درمیان سے بت ہٹ گئے اور قبائل دین حنیف پر متحد ہوگئے تو عربوں کی متحدہ قومیت اور وطنیت کا بھی اظہار ہوا، اور یہ عقیدۂ توحید کی برکت تھی۔ اگر عرب قبیلوں میں منقسم اپنے اپنے بتوں کی پرستش میں لگے رہتے اور ان کے درمیان قبائلی عصبیتوں اور جنگوں کا سلسلہ چلتا رہتا تو وہ نہ کبھی ایک قوت بنتے اور نہ قیصر وکسریٰ کے خزانوں کے مالک بنتے۔ اسلام نے ان میں جو ایمان اور اتحاد پیدا کیا وہ ایک نئے سیاسی اور معاشی نظام پر منتج ہوا جس میں عدل تھا اور دودھ پینے والے بچے تک کا بھی وظیفہ مقرر تھا۔ مجموعی خوش حالی ایسی تھی کہ زکوٰۃ لینے والے مشکل سے ملتے تھے۔
نبوتِ محمدیہؐ سے پہلے عربوں کے مشرکانہ نظام کی نوعیت یہ تھی کہ قریش ’برہمن‘ بن گئے تھے۔ ابتدا میں یہ تجارت کرتے تھے اور اپنے تجارتی قافلوں کو لوٹ مار سے بچانے کے لیے انھوں نے مسلح دستے رکھنے شروع کیے اور اس طرح تجارتی قوت کے پہلو بہ پہلو وہ فوجی قوت کے بھی مالک بن گئے۔ اس فوجی قوت کے زور پر انھوں نے تمام عرب قبائل کو باری باری زیر کیا اور ان کے بت لا لا کر خانہ کعبہ میں رکھتے گئے اور ان بتوں کی پوجا کرنے والے قریش ان کو اپنے بتوں کا متولی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس حیثیت میں نذرانہ دینا اور قریش کی تمام شرائط کو ماننا بھی ان کے لیے ضروری تھا۔ قریش نے ہر قبیلے کے لیے ایک دن مقرر کیا تھا۔ جب وہ خانہ کعبہ میں آکر اپنے بت کی زیارت کر سکتا تھا اور رسومات ادا کر سکتا تھا۔ اس کے عوض قریش ان سے طرح طرح کے ٹیکس وصول کرتے تھے۔ کسی قبیلے کو اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز لانے کی اجازت نہیں تھی۔ ضرورت کی ہر چیز قریش سے خریدنا پڑتی تھی۔
قبائلی زندگی میں اقتصادیات بہت محدود ہوتی ہے۔ لیکن جب قبائل مل کر قوم بنتے ہیں تو ایک مستحکم ریاست وجود میں آتی ہے۔ جس میں امن و امان ہوتا ہے، قانون کا حکم چلتا ہے اور جان و مال کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ عربوں کی قبائلیت کا سبب ان کے علیحدہ علیحدہ بت تھے۔ یہ درمیان سے اٹھ گئے تو وہ ایک اور نیک ہو ئے۔ ان عربوں کے لیے ایسے سازگار اقتصادی حالات پیدا ہوئے جن میں قومی اقتصادیات ترقی پاگئی اور بین الاقوامی تجارت کو ایسا فروغ حاصل ہوا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
مسلمانوں کے عہد میں اقتصادی ترقی کے سبب نئے نئے شہر آباد ہوئے اور پرانے شہروں میں نئی جان پڑ گئی۔ مسلمانوں کی بین الاقوامی تجارت نے عرب و ہند، چین و روس اور افریقہ و یورپ تک اپنا سلسلہ بڑھایا۔ یہ تجارتی کارواں ایک نئی اور بہتر زندگی کا عنوان بن گئے۔ ان کی وجہ سے اقتصادیات اور تہذیب کی رگوں میں نیا خون دوڑنے لگا۔ بحری تجارت نے دنیا کے مختلف براعظموں میں رشتہ قائم کردیا اور یہ اقتصادی رشتہ دنیا کے تہذیبی ارتقا کا بھی سبب بن گیا۔ اس اقتصادی ترقی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسلام نے رہبانیت اور ترکِ دنیا کے رجحان کو ناپسند قرار دیا۔ عیسائی پادری یا دوسرے مذہبی لوگ معاشی سرگرمیوں کو ناپسندیدہ اور مکروہ سمجھتے تھے، لیکن اسلام نے ہر قسم کی اقتصادی جدوجہد اور سرگرمی کی حوصلہ افزائی کی۔ لوگوں کو سفر پر مائل کیا، سیاحت اور تجارت کی خوبیاں بیان کیں۔ دست کار طبقے کو عزت دی گئی، اسے اللہ کا حبیب قرار دیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں نے ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جس میں قیصر وکسریٰ اور برہمنی نظام کے استیصال کا خاتمہ کیا گیا تھا۔