نبی اکرم ا کے آخری ایام

1077

ابو الکلام آزاد
وفات سے چار روز پہلے (جمعرات) کو سیدہ عائشہؓ سے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد ابوبکرؓ اور اپنے بھائی عبدالرحمنؓ بلالیجیے۔ اسی سلسلے میں فرمایا: ’’دوات کاغذ لے آؤ۔ میں ایک تحریر لکھوا دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے‘‘۔ یہ شدت مرض میں حضور سرورعالم کا ایک خیال تھا۔ عمر فاروقؓ نے یہ رائے ظاہر کی کہ حضورؐ کو اس حال میں تکلیف دینا مناسب نہیں ہے۔ اب تکمیل شریعت کا کوئی ایسا نکتہ باقی نہیں رہا جس میں قرآن کافی نہ ہو۔ بعض دوسرے صحابہؓ نے اس رائے سے مطابقت نہ کی جب شور زیادہ ہوا تو بعض نے کہا: خود حضورؐ سے دریافت کر لیا جائے۔ ارشاد فرمایا: ’’مجھے چھوڑ دو۔ میں جس مقام پر ہوں، وہ اس سے بہت دور ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو‘‘۔
اسی روز تین وصیتیں اور فرمائیں:
1۔کوئی مشرک عرب میں نہ رہے۔
2۔سفیروں اور وفود کی بدستور عزت و مہمانی کی جائے۔
3۔قرآن پاک کے متعلق کچھ ارشاد فرمایا جو راوی کو یاد نہیں رہا۔
سرکار پاکؐ علالت کی تکلیف اور بے چینی کے باوجود گیارہ روز تک برابر مسجد میں تشریف لاتے رہے۔ جمعرات کے روز مغرب کی نماز بھی خود پڑھائی اور اس میں سورہ مرسلات تلاوت فرمائی۔ عشا کے وقت آنکھ کھولی اور دریافت فرمایا: کیا نماز ہو چکی؟ مسلمانوں نے عرض کیا: مسلمان آپ کے منتظر بیٹھے ہیں۔ لگن میں پانی بھروا کرغسل فرمایا اور ہمت کر کے اٹھے، مگر غش آ گیا۔ تھوڑی دیر میں پھر آنکھ کھولی اور فرمایا: ’’کیا نماز ہو چکی؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! مسلمان آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ’’اس مرتبہ پھر اٹھنا چاہا، مگر بے ہوش ہو گئے، کچھ دیر کے بعد پھر آنکھ کھولی اور وہی سوال دہرایا: ’’کیا نماز ہو چکی ہے ؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! سب لوگوں کو حضورؐ ہی کا انتظار ہے۔ تیسری مرتبہ جسم مبارک پر پانی ڈالا اور جب اٹھنا چاہا تو غشی آگئی۔ افاقہ ہونے پر ارشاد فرمایا: ابوبکرؓ نماز پڑھا دیں۔ سیدہ صدیقہؓ نے عرض کیا: ابوبکرؓ نہایت رقیق القلب آدمی ہیں جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو نماز نہیں پڑھا سکیں گے۔ ارشاد فرمایا: وہی نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہؓ کا خیال یہ تھا کہ جو شخص رسول اللہؐ کے بعد امام مقرر ہوگا، لوگ اسے لازما منحوس خیال کریں گے۔ روایت ہے کہ اس وقت صدیق اکبرؓ تشریف فرما نہیں تھے۔ اس واسطے عمرؓ کو آگے بڑھایا گیا مگر حضور نے تین مرتبہ فرمایا: نہیں، نہیں، نہیں۔ ابوبکرؓ نماز پڑھائیں۔
رسول اللہؐ کا منبر چند روز پہلے خالی ہو چکا تھا۔ آج رسول اللہؐ کا مصلی بھی خالی ہوگیا۔ جب ابوبکر صدیقؓ حضرت محمد مصطفیؐ کی جگہ کھڑے ہوئے تو عالم یاس نے مسجد نبوی پر اپنے پردے تان دیے اور مسلمانوں کے دل بے اختیار رو دیے اور خود صدیق اکبرؓ کے قدم بھی لڑکھڑا گئے چونکہ رسول اللہ کے ارشاد کے ساتھ توفیق الٰہی شامل تھی۔ اس واسطے یہ کٹھن گھاٹی بھی گزر گئی۔ صدیق اکبرؓ نے حیات پاک نبوی میں اسی طرح سترہ نمازیں پڑھیں۔
وفات کے دو روز پہلے
سیدنا صدیق اکبرؓ ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ حضورؐ کی طبیعت نے مسجد کی طرف رجوع کیا اور علی وعباسؓ کے کندھوں پرسہارا لیتے ہوئے جماعت میں تشریف لے آئے۔ نمازی نہایت بے قراری کے ساتھ حضورؐ کی طرف متوجہ ہوئے اور صدیق اکبرؓ بھی مصلے سے پیچھے ہٹے۔ مگر حضورؐ نے ارشاد فرمایا: پیچھے مت ہٹو۔ پھر صدیقؓ کے برابر بیٹھ گئے اور نماز ادا کرنے لگے۔ حضور کی اقتدا صدیق اکبرؓ کرتے تھے اور صدیق اکبرؓ کی اقتدا مسلمان کرتے تھے۔ یہ پاک نماز اسی طرح مکمل ہوگئی تو حضور پاکؐ حجرہ عائشہؓ میں تشریف لے گئے۔
وفات کے ایک روز پہلے
مخدوم انسانیت جو قید دنیا سے آزاد ہو رہے تھے، صبح بیدار ہوئے تو پہلا کام یہ کیا کہ سب غلاموں کو آزاد فرمایا۔ یہ تعداد میں 40 تھے۔ پھر اثاث البیت کی طرف توجہ فرمائی۔ اس وقت کاشانہ نبوی کی ساری دولت صرف سات دینار تھے۔ عائشہؓ سے فرمایا: انہیں غریبوں میں تقسیم کردو، مجھے شرم آتی ہے کہ رسول اپنے اللہ سے ملے اور اس کے گھر میں دولت دنیا پڑی ہو۔ اس ارشاد پر گھر کا گھر صاف کر دیا گیا۔ آخری رات کاشانہ نبوی میں چراغ نبوی جلانے کے لیے تیل تک موجود نہیں تھا۔ یہ ایک پڑوسی عورت سے ادھار لیا گیا۔ گھر میں کچھ ہتھیار باقی تھے۔ انہیں مسلمانوں کو ہبہ کر دیا گیا۔ زرہ نبوی، 30 صاع جو کے عوض ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ چونکہ ضعف لمحہ بہ لمحہ ترقی پذیر تھا۔ اس واسطے بعض درد مندوں نے دوا پیش کی مگر انکار فرمایا۔ اسی وقت غشی کا دورہ آ گیا اور تیمار داروں نے منہ کھول کر دوا پلا دی۔ افاقے کے بعد جب اس کا احساس ہوا تو فرمایا: اب یہی دوا پلانے والوں کو بھی پلائی جائے۔ یہ اس لیے کہ جس وجود باوجود کی صحت کے لیے ایک دل گرفتہ دعائیں کر رہی تھی، وہ اپنے اللہ کی دعوت کواس طرح قبول کر چکا تھا کہ اب اس میں نہ دعا کی گنجائش باقی تھی اور نہ دوا کی۔
یوم وفات
9 ربیع الاول (دو شنبہ) کو مزاجِ اقدس میں قدرے سکون تھا، نماز صبح ادا کی جا رہی تھی کہ حضورؐ نے مسجد اور حجرے کا درمیانی پردہ سرکادیا۔ اب چشم اقدس کے روبرو نمازیوں کی صفیں مصروف رکوع وسجود تھیں۔ سرکار دوعالمؐ نے اس پاک نظارے کو جو حضورؐ کی پاک تعلیم کا نتیجہ تھا، بڑے اشتیاق سے ملاحظہ فرمایا اور جوش مسرت سے ہنس پڑے۔ لوگوں کو خیال ہوا مسجد میں تشریف لا رہے ہیں، نمازی بے اختیار سے ہوگئے، نماز ٹوٹنے لگیں اور صدیقؓ جو امامت کرا رہے تھے، نے پیچھے ہٹنا چاہا، مگر حضورؐ نے اشارہ مبارک سے سب کو تسکین دی اور چہرہ انور کی ایک جھلک دکھا کر پھر حجرے کا پردہ ڈال دیا۔ اجتماع اسلام کے لیے رسولؐ کا یہ جلوہ زیارت کا آخری تھا اور شاید یہ انتظام بھی خود قدرت کی طرف سے ہوا کہ رفیقان صلوۃ جمال آراءکی آخری جھلک دیکھتے جائیں۔
9 ربیع الاول کی حالت صبح سے نہایت عجیب تھی۔ ایک سورج بلند ہو رہا تھا اور دوسرا سورج غروب ہو رہا تھا۔ کاشانہ نبویؐ میں پے درپے غشی کے بادل آئے اور رسولؐ کے وجود اقدس پر چھا گئے۔ ایک بے ہوشی گزر جاتی تھی تو دوسری پھر وارد ہو جاتی تھی۔ انہیں تکلیفوں پر پیاری بیٹی کو یاد فرمایا۔ وہ مزاج اقدس کا یہ حال دیکھ کرسنبھل نہ سکیں۔ سینہ مبارک سے لپٹ گئیں اور رونے لگیں۔ بیٹی کو اس طرح نڈھال دیکھ کر ارشاد فرمایا:
’’میری بیٹی! رو نہیں، میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا۔ تو انا للہ و انا الیہ راجعون کہنا۔ اسی میں ہر شخص کے لیے سامان تسکین موجود ہے‘‘۔ سیدہ فاطمہؓ نے پوچھا: کیا آپ کے لیے بھی؟ فرمایا: ہاں، اس میں میری بھی تسکین ہے۔
جس قدر رسول اللہؐ کا درد وکرب بڑھ رہا تھا، فاطمہؓ کا کلیجہ کٹتا جا رہا تھا۔ حضرت رحمۃ العالمینؐ نے ان کی اذیت کو محسوس کر کے کچھ کہنا چاہا تو پیاری بیٹی نے سرورکائناتؐ کے لبوں سے اپنے کان لگا دیے۔ آپؐ نے فرمایا: بیٹی! میں اس دنیا کو چھوڑ رہا ہوں۔ فاطمہؓ بے اختیار رو دیں۔ پھر فرمایا: فاطمہؓ! اہل بیت میں تم سب سے پہلے مجھے ملو گی۔ فاطمہؓ ہنس دیں کہ یہ جدائی قلیل ہے۔
پیغمبر انسانیتؐ کی حالت نازک ہوتی جارہی تھی۔ یہ حال دیکھ کر فاطمہؓ نے کہنا شروع کیا: واکرب اباہ! ہائے میرے باپ کی تکلیف، ہائے میرے باپ کی تکلیف! فرمایا! فاطمہؓ! آج کے بعد تمہارا باپ کبھی بے چین نہیں ہوگا۔ حسن و حسینؓ بہت غمگین ہو رہے تھے، انہیں پاس بلایا، دونوں کو چوما، پھر ان کے احترام کی وصیت فرمائی۔ پھر ازواج مطہراتؓ کو طلب فرمایا اور انہیں نصیحتیں فرمائیں۔ اسی دوران میں ارشاد فرماتے تھے:
مع الذین انعم اللہ علیھم
’’ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام فرمایا‘‘۔
اللھم بالرفیق الاعلی
’’اے خداوند! بہترین رفیق‘‘۔
پھر علیؓ کو طلب فرمایا۔ آپ نے سرمبارک کو اپنی گود میں رکھ لیا۔ انہیں بھی نصیحت فرمائی۔ پھر ایک دم اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’نماز، نماز اور لونڈی، غلام اور پسماندگان‘‘۔
اب نزع کا وقت آ پہنچا تھا۔ رحمۃ العالمینؐ، عائشہؓ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ پانی کا پیالہ پاس رکھا تھا، اس میں ہاتھ ڈالتے تھے اور چہرہ انور پر پھرا لیتے تھے۔ روئے اقدس کبھی سرخ ہو جاتا اور کبھی زرد پڑ جاتا تھا۔ زبان مبارک آہستہ آہستہ ہل رہی تھی۔ لا الہ الا اللہ، ان للموت سکرات۔
’’خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور موت تکلیف کے ساتھ ہے‘‘۔
عبدالرحمن بن ابوبکرؓ ایک تازہ مسواک کے ساتھ آئے تو حضور پاکؐ نے مسواک پر نظر جمادی۔ عائشہؓ سمجھ گئیں کہ مسواک فرمائیں گے۔ ام المومنینؓ نے دانتوں میں نرم کرکے مسواک پیش کی اور آپ نے بالکل تندرستوں کی طرح مسواک کی۔ دہان مبارک پہلے ہی طہارت کا سراپا تھا۔ اب مسواک کے بعد اور بھی مجلا ہوگیا تو یک لخت ہاتھ اونچا کیا کہ گویا تشریف لے جا رہے ہیں اور پھر زبان قدس سے نکلا:
بل الرفیق الاعلی۔ ’’اب اور کوئی نہیں، صرف اسی کی رفاقت منظور ہے‘‘۔
بل الرفیق الاعلی۔ بل الرفیق الاعلی۔ تیسری آواز پر ہاتھ لٹک آئے، پتلی اوپر کو اٹھ گئی اور روح شریف عالم قدس کو ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی۔
اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد و بارک وسلم
یہ ربیع الاول 11ھ دو شنبہ کا دن اور چاشت کا وقت تھا۔ عمر مبارک قمری حساب سے 63 سال اور 4 دن ہوئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔