ایک ساتھ تین طلاقیں دینا جرم نہیں ہے

662

ڈاکٹر نواب احمد
کئی برسوں سے اسلامی نظریاتی کونسل ایک ساتھ تین طلاق کو قابلِ سزا قرار دینے کی سفارش کر رہی ہے۔ اس سے خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ دیر سویر سزا کی قانون سازی ہو جائے گی۔ یہ خطرہ پاکستان میں روشن خیالی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور بالخصوص بھارتی عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے اور بھی بڑھ گیا ہے۔ تاہم ماہ ستمبر 2019 کے پہلے ہفتے میں جو خبر آئی ہے، اس میں اطمینان کی بات وزیرِ قانون فروغ نسیم کا تبصرہ ہے کہ بیک وقت تین طلاقوں کو قابلِ سزا جرم قرار دینے کا کوئی حوالہ ملا تو قانون سازی کر سکتے ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ فروغ نسیم اور ان کے ہم خیال قانون سازوں کی دانش مندی میں اضافہ کرے اور انہیں استقامت دے کہ جب تک اسلامی نظریاتی کونسل اس فعل کے قابلِ سزا ہونے کا واضح ثبوت قرآن و سنت سے پیش نہ کردے، وہ سزا کی قانون سازی کی جانب نہ بڑھیں۔
نوٹ: یہ تحریر www.islamreality.org کی جانب سے ہے اس لیے ’’میں‘‘ کی جگہ ’’ہم‘‘ استعمال کیا جارہا ہے۔
ہم مباحثے کی ابتداء میں فوری تین طلاق کے متعلق اپنی رائے، جو امام شافعیؒ کی رائے سے ملتی جلتی ہے اور اس کے خلاف ہرگز نہیں ہے، کو نقل کر رہے ہیں تاکہ قارئین ہماری تحریر کو آسانی سے فالو کر سکیں۔
تین طلاق کا قرآنی قانون
قرآن کے مطابق (جسے ہم بعد میں ثابت کریںگے) شادی کے بعد جب کبھی طلاق کی نوبت آئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک یا تین طلاق دینے کا فیصلہ مرد کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ اور بالواسطہ طور پر نصیحت کی ہے کہ اگر کوئی بڑی وجہ (جس کی بنیاد پر مرد کا پختہ ذہن بن جائے کہ وہ آئندہ بھی اس عورت کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کرنا نہیں چاہے گا) نہ ہو تو پھر ایک ہی طلاق دینی چاہیے تاکہ اس کے سامنے دونوں راستے کھلے رہیں، اور اگر اللہ چاہے تو وہ اپنے فضل سے ان کے درمیان موافقت کی صورت پیدا کر سکے۔
یہاں موقع کی مناسبت سے تین باتوں کا ذکر کیا جارہا ہے نمبر ۱: ہمارے ہاں فوری تین طلاقوں کے زیادہ تر واقعات لاعلمی اور جذباتی ردِ عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس کا علاج لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا ہے، بیک وقت طلاق کے قانون کو ختم کرنا نہیں۔ کیونکہ بعض صورتوں میں اس کی ضرورت پڑتی ہے مثلاً عورت کی بدکاری۔
نمبر ۲: قرآن کے مطابق اگر کوئی مرد چھوٹی موٹی وجہ سے تین طلاق دے بیٹھے تو وہ اپنے اوپر ہی ظلم کرتا ہے یعنی وہ خود اپنا نقصان کرتا ہے۔ لہٰذا ایسے مرد کو سزا دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ رہا یہ سوال کہ عورتوں اور بچوں کا نقصان تو صاف طور پر نظر آتا ہے۔ اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس کی وجہ طلاق کا فعل نہیں ہے، بلکہ کچھ اور ہے۔ اس کی تفصیل پر گفتگو ہم بعد میں کریں گے۔ فی الحال اتنا جان لیجیے کہ اگر یہ بات سچ ہوتی تو فوری تین طلاق سے عورتوں اور بچوں پر ظلم کا تذکرہ قرآن و حدیث میں ضرور آتا۔
نمبر ۳: مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں جو آراء نقل کی ہیں، ان کے مطابق امام شافعیؒ بھی طلاقِ سنت اور طلاقِ بدعت کا فرق صرف ٹائمنگ (مثلاً ایام میں طلاق دینا، ایسے طْہر میں طلاق دینا جب واضح نہ ہو کہ عورت حمل سے ہے یا نہیں) کی بنیاد پر کرتے ہیں، تعدادِ طلاق کی بنیاد پر نہیں۔ اس طرح ان کے نزدیک بیک تین طلاقیں دینا، طلاقِ بدعت نہیں بلکہ طلاقِ سنت (طریقہ کے مطابق طلاق) ہے۔
کونسل کی جانب سے سزا کا جواز بے بنیاد ہے۔
یکبارگی تین طلاق دینے والوں کو سزا کی بات اس دعوے پر کی جاتی ہے کہ اس فعل سے عورت کی حق تلفی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ بھارتی عدالت عظمیٰ کا مقدمہ یاد کیجیے جہاں پانچ مسلمان مطلقہ خواتین، مختلف تاریخوں میں الگ الگ، اپنی حق تلفی کا مقدمہ لے کر عدالت گئی تھیں۔ آئیے حق تلفی کے حوالے سے حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔
الف: آپ درج ذیل سوالات پر غور کیجیے،
۱: کیا قرآن کہیں کہتا ہے کہ عورت کا یہ حق ہے کہ شادی کے بعد کسی موقع پر جب کبھی طلاق کی نوبت آئے تو اس کا شوہر ہمیشہ کے لیے عورت کو رشتہ ازدواج سے علیحدہ نہیں کرسکتا؟
۲: کیا عورت کے اس حق کا ذکر کسی حدیث میں موجود ہے؟
۳: کیا انسانی حقوق یا نسوانی حقوق کا کوئی چارٹر آج عورت کے اس حق کی حمایت کرتا ہے؟
۴: کیا کسی بھی ملک کا آئین یا قانون آج عورت کے اس حق کی ضمانت دیتا ہے؟
۵: کیا کسی بھی ملک کے عوام آج عورت کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں کہ مرد اس سے شادی کے بعد کسی موقع پر اس سے اپنا رشتہ ازدواج ہمیشہ کے لیے توڑ نہیں سکتا؟
آپ جانتے ہیں کہ اوپر ہر سوال کا جواب نفی میں ہے۔ جب عورت کا یہ حق ہے ہی نہیں کہ اس کا خاوند شادی کے بعد طلاق کی نوبت آنے پر ہمیشہ کے لیے اس سے رشتہ ازدواج منقطع نہیں کرسکتا تو پھر بیک وقت تین طلاقوں سے اس کی حق تلفی کیونکر ہوتی ہے؟
(ب) اسلامی قانون میں دو رجعی طلاقوں کی موجودگی سے بہت سے علماء یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عورت کا یہ حق ہے کہ اسے دو مرتبہ ReUnion کا چانس ملنا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں طلاق کے پہلے دو موقعوں پر خاوند کو لازمی طور پر رجعت پر سوچنے کے لیے وقت رکھنا چاہیے۔ گویا جب شادی کے بعد پہلی دفعہ طلاق کی نوبت آئے تو مرد فوری طور پر ہمیشہ کے لیے رشتہ ازدواج کو ختم نہیں کرسکتا۔ لیکن سوچ کی یہ کڑی غلط ہے کیونکہ رجعی طلاق میں رجعت لازمی نہیں ہوتی۔ بلکہ محض ایک متبال چوائس ہے۔ اس طرح پہلی طلاق دیتے وقت بھی مرد پر لازم نہیں ہے کہ وہ رجعت (عدت کے اندر بغیر نکاح کے، اور عدت کے بعد تجدیدِ نکاح سے) کا خیال لازمی طور پر اپنے دل و دماغ میں رکھے۔ جب مرد رشتہ ازدواج کو دوبارہ قائم نہ کرنے کا قصد ایک طلاق دیتے وقت بھی کرسکتا ہے تو یک بارگی تین طلاق دیتے وقت ایسا کرنے سے عورت کی حق تلفی کس طرح ہوتی ہے؟
(ج) آپ اس معاملے کو معاہدے کے مروجہ اصول سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ آپ معاہدہ کرکے کسی شخص کے ساتھ اشتراک میں کاروبار شروع کرتے ہیں تو کیا آپ یا آپ کا پارٹنر اس شراکت سے ہمیشہ کے لیے الگ نہیں ہو سکتا؟ ہو سکتا ہے!
اسی طرح شادی بھی مرد اور عورت کے مابین ایک عمرانی یا معاشرتی معاہدہ ہے جس سے کوئی بھی فریق علیحدگی کے کسی بھی موقع پر ہمیشہ کے لیے خود کو علیحدہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ لہٰذا بیک وقت تین طلاقوں کے بارے میں یہ کہنا کہ اس سے عورت کا حق مارا جاتا ہے، بے بنیاد ہے۔
(د) آج ترقی یافتہ دنیا میں (جہاں نسوانی حقوق کا بڑا غلغلہ ہے) لوگ عدالت کے ذریعے ایک طلاق دیتے ہیں۔ پھر کوئی شاذ و نادر جوڑا ہی دوبارہ آپس میں شادی کرتا ہے۔ جب حقوقِ نسواں کے چمپئن شادی کے بعد طلاق کی نوبت آنے پر ایک طلاق (جس میں دوبارہ ملاپ نہ کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا جاتا) سے ہمیشہ کے لیے رشتہ توڑ دیتے ہیں تو پھر اسلام میں یکبارگی تین طلاق کے ذریعے ایسے اعلان کے ساتھ ہمیشہ کے لیے رشتہ توڑ دینا کیونکر غلط ہے؟ کیا اپنے ارادے کا اظہار کرنا اصولی طور پر ناجائز (حرام، بدعت) کام ہے؟ ظلم ہے؟ حق تلفی ہے؟
(جاری ہے)
(ہ) درج بالا نکتہ اسلام میں بھی ’’ایک یا تین طلاق‘‘ کے تناظر میں موجود ہے۔ یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ ایک طلاق کی صورت میں مرد کا یہ حق ہے کہ وہ رجعت کا سوچ بھی سکتا ہے اور رجعت کا نہیں بھی سوچ سکتا۔ اب فرض کیجیے جمیل نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دیتے وقت پختہ ارادہ کیا تھا کہ وہ دوبارہ ملاپ نہیں کرے گا، لہٰذا وہ رجعت کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب کہ اقبال نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاق دے کر اپنا پختہ ارادہ ظاہر کر دیا تھا کہ وہ دوبارہ ملاپ نہیں کرے گا، لہٰذا وہ رجعت کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان دو صورتوں میں دوبارہ ملاپ نہ کرنے کا پختہ ارادہ اور بعد ازاں دوبارہ ملاپ کے لیے تیار نہ ہونا مشترک ہے، فرق صرف طلاق کے وقت اپنے ارادے کو ظاہر کرنے یا نہ کرنے کا ہے۔ اب یہ کون سا اصول ہے کہ دوبارہ ملاپ نہ کرنے کے ارادے کو ظاہر نہ کرنا انصاف ہے اور اس کو ظاہر کردینا بے انصافی اور ظلم ہے۔
انصاف کے عمل میں جرم کا ذکر غائب:
ذرا سوچیے، میں آپ کو اپنا حق تلف کرنے کے الزام میں سزا دلوانا چاہتا ہوں لیکن میں عدالت کو یہ نہیں بتاتا کہ آپ نے میرا کون سا حق مارا ہے۔ اور اگر عدالت اس صورت میں آپ کے خلاف سزا سنا دے تو کیا یہ انصاف ہوگا؟ بہت ممکن ہے کہ آپ اسے انصاف تسلیم نہ کریں لیکن اسی قسم کا انصاف اسلامی نظریاتی کونسل یکبارگی تین طلاق دینے والے آدمی کے خلاف چاہتی ہے۔ چونکہ کونسل مذہبی معاملات میں رائے دینے کا اعلیٰ ترین اور قومی ادارہ ہے، اس پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ چاہتی ہے کہ محض اس کی سفارش (جس میں جرم کا ثبوت موجود نہیں ہے) پر قومی اسمبلی یکبارگی تین طلاق دینے والوں کے لیے سزا کا قانون بنا دے۔ پھر جب کسی شخص کا مقدمہ عدالت میں پیش ہوگا تو عدالت محض یکبارگی تین طلاق کے فعل کو دیکھے گی اور قانون کے مطابق سزا سنا دے گی۔ اس طرح مرد نے عورت کا کون سا حق مارا ہے، جو مقدمے کی اصل بنیاد ہے، سرے سے زیرِ غور ہی نہیں آئے گا۔
اب آپ خود فیصلہ کیجیے: کیا انصاف کے اس عمل میں آپ کو کونسل کی دیانت داری اور غیر جانب داری نظر آتی ہے؟
فردِ جرم میں مزید بے قاعدگیاں:
کچھ بے قاعدگیوں کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ یہ بے قاعدگیاں آج کی اسلامی نظریاتی کونسل اپنی روشن خیالی کے زعم میں کر رہی ہے یا عورتوں کی جذباتی طرف داری میں تدبر کا جوہر کھو کر، یہ حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے۔ ہم تو وہ کچھ کہہ رہے ہیں جو بظاہر نظر آرہا ہے۔ یوں بھی کونسل کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انصاف کے لیے محض یہ ضروری نہیں ہوتا کہ انصاف کیا جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ اب آئیے فردِ جرم کے حوالے سے کونسل کی کچھ نامناسب باتوں اور رویے کی جانب:
(1): 4 جنوری 2018، ڈان نیوز ٹی وی، رپورٹ قلب علی۔
’’اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) نے ایک ساتھ تین طلاقیں دینے پر سزا کے نفاذ کی حمایت کردی۔
گزشتہ روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قبلہ ایاز نے حال ہی میں بھارتی عدالت عظمیٰ کی جانب سے ایک وقت میں تین طلاق دینے کے خلاف دیے گئے فیصلے پر اظہارِ خیال کیا‘‘۔
یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے، تین بھارتی غیر مسلم ججوں (فیصلہ تین دو کا تھا، جس میں مسلم جج نے اختلاف کیا تھا اور سکھ جج نے بھی اختلاف کیا تھا) کی جانب سے یکبارگی تین طلاق کو قابلِ سزا جرم قرار دینے کے فیصلے سے اتفاق کیا ہے۔ کونسل کے اس عمل سے کم از کم ماضی کے تمام علماء اور فقہاء اور صدیوں پر محیط ایک عام مسلم پریکٹس (بیک وقت تین طلاقیں دینے پر سزا نہ دینا) کی بے عزتی ہوئی ہے۔ اب غیر مسلموں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ نکاح و طلاق جیسے عام معاملے میں بھی ماضی کے تمام مسلم جورسٹ کی آیاتِ قرآنی کی سمجھ (بھارتی عدالت عظمیٰ نے حدیث کا کوئی حوالہ نہیں دیا ہے) آج کے غیر مسلم ججوں کے مقابلے میں ناقص اور غلط تھی۔ جس کے نتیجے میں مسلم خاندانی نظام میں مرد بے لگام ہو کر عورت پر ظلم ڈھاتے رہے اور اس طرح صدیوں سے مسلم معاشرہ عورتوں کے لیے جہنم بنا ہوا ہے۔ کونسل کی اس کارکردگی پر کیا تبصرہ مناسب ہے، اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑ رہے ہیں۔
(2) 27 ستمبر 2018، ڈان نیوز ٹی وی، رپورٹر جاوید حسین:
’’کونسل کا کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ اجلاس میں تین طلاق کے جرم کے مرتکب افراد کے لیے سزائیں مقرر کرنے پر غور کیا گیا… اور اس کو قابل تعزیز قرار دینے کی تائید پہلے ہی موجود ہے۔ خواتین اور بچے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اور ان کی صحت اور تعلیم پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں‘‘۔
یہاں موصوف کا فقرہ نوٹ کیجیے کہ اس کو قابلِ تعزیر قرار دینے کی ’’تائید‘‘ پہلے ہی موجود ہے، یعنی موصوف نے یہ نہیں کہا کہ اس فعل کے قابلِ تعزیر ہونے کا ’’ثبوت‘‘ پہلے ہی موجود ہے۔ گویا کونسل کے نزدیک ملزم کو سزا دینے کے لیے محض کونسل کی پہلے سے یا موجودہ ’’تائید‘‘ ضروری ہوتی ہے، جرم کا ’’ثبوت‘‘ قطعی ضروری نہیں ہوتا۔ کیا جرم کے ’’ثبوت‘‘ کے بجائے محض علماء کی ’’تائید‘‘ پر لوگوں کو سزا دینا درست ہے؟
(3) اوپر خبر میں نوٹ کیجیے کہ گھنٹوں کے اجلاس میں بھی کونسل یکبارگی تین طلاق کے فعل کو قابلِ سزا ہونے کا ثبوت نہیں لا سکی۔ اور یہ ناکامی صرف اسی اجلاس میں نہیں ہوئی بلکہ کئی سال سے کونسل اس کام میں ناکام رہی ہے۔ کونسل کی یہ مسلسل ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ فعل قابلِ سزا نہیں ہے۔
(4) اوپر موصوف کی تیسری بات، عورتوں اور بچوں کا کافی متاثر ہونا ہے۔
آئیے پہلے عورت کے معاملے کو دیکھتے ہیں۔ اصولی طور پر مطلقہ عورت پر آنے والے مصائب کے حوالے سے فعلِ طلاق کو اسی صورت میں جرم قرار دیا جا سکتا ہے جب طلاق کے بعد بھی مطلقہ کا خیال رکھنا اس کے سابق شوہر کی ذمے داری ہو۔ اگر طلاق کے بعد مرد پر مطلقہ کی ذمے داری ہوتی ہی نہیں تو پھر وہ طلاق دے کر کس طرح جرم کا ارتکاب کرتا ہے؟
دراصل عورت پر مصائب کی لنگڑی دلیل اس مفروضے پر دی جاتی ہے جس کا بیان بھارتی عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں بھی موجود ہے۔ عدالت کا ماننا ہے کہ یکبارگی تین طلاق سے رشتہ فوری طور پر ٹوٹ جاتا ہے اور مصالحت (دوسرے لفظوں میں طلاق کو کالعدم کرنا) کا کوئی موقع نہیں رہتا۔ لیکن ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ ایک طلاق دینے پر بھی رجعت لازمی نہیں ہوتی۔ اور ایسا آج ساری دنیا میں ہورہا ہے۔ جب ایک طلاق کے بعد مرد رجعت سے انکار کردے (اس حق کو مسلم علماء اور ساری دنیا مانتی ہے) تو عورت پر وہی مصائب آتے ہیں جس کا ذکر موصوف نے تین طلاق کے حوالے سے کیا ہے۔ لہٰذا عورت پر مصائب کے حوالے سے ایک طلاق کو درست اور تین طلاق کو جرم قرار دینا محض ایک دوہرا معیار ہے، بے بنیاد ہے۔
(5) اب آئیے بچوں کی مشکلات کی طرف: مرد عورت کو طلاق دیتا ہے، بچوں کو طلاق نہیں دیتا۔ لہٰذا قرآن کی رو سے بچے باپ کی تحویل میں رہیں گے۔ اور باپ پر بچوں کی پرورش اور تمام تر اخراجات کی ذمے داری ہوگی۔ اب اگر کوئی باپ کسٹڈی لینا نہیں چاہتا یا اپنی تحویل میں اپنے بچوں کو نظر انداز کرتا ہے یا شیر خوارگی کی مدت کے دوران اپنی مطلقہ کو اخراجات نہیں دیتا تو یہ قابلِ سزا جرم ہے۔ لیکن یہ جرم بیوی کو طلاق دینے کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش نہ کرنے کی بنیاد پر ہے۔
زیادہ تر صورتوں میں بچوں پر مصائب کی وجہ ماں کا بچوں کو اپنی تحویل میں رکھنا ہوتا ہے۔ موصوف ہی کی بات نوٹ کیجیے: ’’خواتین اور بچے بری طرح متاثر ہوتے ہیں‘‘۔ جب عورت خود ہی معاشی مصیبت میں گرفتار ہو، پھر وہ بچوں کو بھی اپنی تحویل میں رکھنے کی ضد پر اتر آئے تو ان بچوں کی پرورش اور ان کے مستقبل کا بری طرح متاثر ہونا فطری بات ہے۔ یہاں سارا قصور عورت کا ہے، عدالت کا ہے، مفتیان کا ہے۔ (قرآن کی رو سے چائلڈ کسٹڈی پہلے دن سے باپ کی ہوتی ہے۔ صرف شیر خوار گی کی مدت میں وہ بچے کو ماں کی نگہداشت میں رکھے گا اور اسے اس نگہداشت کی اجرت ادا کرنی ہوگی)
مجموعی طور پر بچوں پر مصائب کا تعلق فعلِ طلاق سے نہیں بلکہ طلاق کے بعد سابقہ زوجین کے بچوں کی جانب حقوق و فرائض سے ہے۔
(6) 21 جنوری 2015 ڈان نیوز اردو، رپورٹر عرفان طارق: ’’کونسل کے چیئرمین محمد خان شیرانی نے دو مہینے سے جاری اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ تین طلاقیں تین مختلف اوقات میں دی جا سکتی ہیں، اس لیے اسے جرم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ تاہم بیک وقت ایسا کرنے والے کے لیے سزا متعین کرنے کا اختیار عدالت پر چھوڑ دیا ہے‘‘۔
تین طلاقیں تین مختلف اوقات میں (ہی) دی جاسکتی ہیں، یہ بیان نہ کہیں قرآن میں ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں موجود ہے۔ پھر ایک وقت میں تین طلاقوں کے مقدمات نبیؐ کے سامنے پیش ہوتے رہے اور آپؐ نے یہ کبھی نہیں کہا کہ تین طلاقیں صرف مختلف اوقات ہی میں دی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا محمد خان شیرانی کا دعویٰ صراصر غلط بیانی ہے۔
(7) محمد خان شیرانی نے اپنے چند رفقاء کی تاویل کی بنیاد پر عمر فاروقؓ ان کے عہد کے مفتی صحابہ عثمان و علیؓ کے دور کے مفتی صحابہ، ائماء اربعہ جیسے اکابرین کے فیصلوں کو غلط قرار دیدیا ہے۔ اور صدیوں کی اقلیتی رائے کو ملک کا قانون بنانا چاہتے ہیں۔ جس ملک میں مذاہبِ اربعہ پر عمل کرنے والوں کی غالب اکثریت ہو وہاں ایسا کرنا (اپنے نکتہ نظر کو قطعی طور پر ثابت کیے بغیر) کیا علمی اور قانونی لحاظ سے درست ہوگا؟
(8) بقول شیرانی صاحب: کونسل نے سزا متعین کرنے کا اختیار عدالت پر چھوڑ دیا ہے۔ اس صورت میں مختلف جج اپنی صوابدید پر مختلف سزائیں سنائیں گے۔ جب جرم کی نوعیت ایک ہی ہو تو کیا کسی مجرم کو کم، دوسرے کو زیادہ، اور تیسرے کو اور بھی زیادہ سزا دینا انصاف ہوگا؟
(9) 6 ستمبر 2019، اخبارِ جنگ: ’’اسلامی نظریاتی کونسل نے بیک وقت تین طلاقیں قابلِ سزا قرار دینے کی سفارش کردی۔ پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل نے میراث اور طلاق کی شیعہ اور سنی مسالک کے مطابق قانون سازی کی حمایت کردی۔ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ بیک وقت تین طلاقوں کو قابلِ سزا جرم قرار دینے کا کوئی حوالہ ملا تو قانون سازی کرسکتے ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل بیک وقت تین طلاقیں قابلِ سزا ہونے کی تصدیق کرے گی تو قانون سازی کی جانب بڑھیں گے‘‘۔
وزیرِ قانون فروغ نسیم صاحب کے ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے نمائندوں (جو قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھے) نے نہ تو بیک وقت تین طلاقوں کے قابلِ سزا ہونے کا کوئی حوالہ دیا، اور نہ ہی اس فعل کے قابلِ سزا ہونے کی کسی اور بنیاد پر تصدیق کی۔ کیا کونسل کی یہ کارکردگی علمی لحاظ سے اطمینان بخش ہے؟
(10) نبیؐ کریم کے زمانے میں بیک وقت تین طلاقوں کے مقدمات پیشی ہوتے رہے اور آپؐ نے کسی بھی شخص کو ایسا کرنے پر کوئی سزا نہیں دی۔ اگر آج سزا دینے کا فیصلہ درست مانا جائے تو کیا اس سے اللہ کے رسول کا فیصلہ (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) غلط ثابت نہیں ہوتا؟ پھر آج سزا دینے کا جواز عورتوں اور بچوں پر کمر توڑ دینے والا ظلم قرار دیا جارہا ہے۔ تو کیا اس سے اللہ کے رسولؐ پر یہ الزام نہیں آتا کہ انہوں نے (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) اسلامی خاندانی نظام میں عورت اور بچوں پر شدید ظلم کا کوئی نوٹس نہیں لیا، ان کو نظر انداز کیا، اور مرتکبین کو سزا نہ دے کر ظلم کی حمایت کی؟ اس طرح انہوں نے (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) مسلمانوں کو بیوی اور بچوں پر ظلم ڈھانے اور ان کی زندگیوں کو برباد کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی؟ کیا اس سے عالمی سطح پر اسلامی نظام عورتوں اور بچوں کے حق میں پچھلے چودہ صدیوں سے جاری ایک ظالمانہ نظام قرار نہ پائے گا؟
نوٹ: یہ کالم اس قدر طویل ہوگیا ہے کہ قرآن و حدیث کے مباحث اب علیحدہ مضامین میں شائع ہوں گے۔