قانون کی موت!

330

بنگلادیش اور پاکستان کے معاشی، سیاسی اور عدالتی نظام کو دیکھ کر یہ تکلیف دہ احساس ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں نے بنگلادیش بنا کر کوئی غلطی نہیں کی، اس اجمال کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ گزشتہ دنوں بنگلادیش کی عدالت نے ایک لڑکی کے قتل میں ملوث سولہ ملزمان کو سزائے موت سنا کر مقتولہ کے لواحقین کے غم کو کچھ کم کردیا۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ پاکستان کی عدالت نے سانحہ ساہیوال کے قاتلوں کو شک کا فائدہ دے کر بریت کا پروانہ جاری کردیا۔ ایک مغربی ملک کے جج نے محض اس لیے خودکشی کرلی کہ اسے مجبور کیا جارہا تھا کہ ملزمان کو مجرم ثابت کرنے کے بجائے بری کردیا جائے۔ قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سانحہ ساہیوال کے مقدمے کی اپیل کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا، پولیس نے دانستہ طور پر کیس کو کمزور کردیا ہے جس کی بنیاد پر ملزمان کو سزا نہیں ہوسکتی۔ آئین کے یہ ماہرین بھی ’’ماہرہ خان‘‘ ہوتے ہیں۔ جب کوئی سائل شکایت کرتا ہے کہ اس کے کرائے دار نے جعلی دستاویز بنا کر مکان وغیرہ پر قبضہ کرلیا ہے تو قانون کا ماہر کہتا ہے تمہارا مقدمہ بہت کمزور ہے کیوں کہ جائداد پر تمہارا قبضہ نہیں ہے۔ اصل دستاویزات کی موجودگی میں مقدمہ کمزور کیسے ہوسکتا ہے۔ سانحہ ساہیوال میں چشم دید گواہ موجود ہیں پھر شک کی بنیاد پر ملزمان کو بری کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ یوں بھی جج کو لکیر کا فقیر نہیں ہونا چاہیے۔ قانون کی دفعات کو سامنے رکھ کر فرانزک ثبوت کو دفع کرنا قانون کے تقاضے کا دفعہ کرنا نہیں قانون کی موت ہے۔ مہذب ممالک میں عدالتیں فرانزک لیبارٹری سے تصدیق شدہ ثبوت پر سزا دیتی ہیں، شخصی گواہی کو کم اہمیت دی جاتی ہے مگر وطن عزیز میں شخصی گواہی پر سزا دینا معمول کی بات ہے۔
سانحہ ساہیوال کے 49 گواہ تھے جو سچی گواہی سے گریزاں رہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض گواہوں نے موقع واردات پر موجود ہونے سے ہی انکار کردیا، کچھ گواہوں نے ملزمان کو پہچانے سے انکار کردیا، اس دل دہلانے والے واقعے کی ویڈیو جج صاحب نے یقینا دیکھی ہوں گی، بچوں کے بیانات بھی سُنے ہوں گے، ملزمان کے اسلحہ اور جائے وقوعہ سے ملنے والی گولیوں کی فرانزک رپورٹ بھی دیکھی ہوگی پھر ملزمان کو شک کا فائدہ کیوں دیا گیا؟ اس پس منظر میں اس روایت پر شک کیوں کیا جائے کہ وزیراعظم عمران خان نے قصاص دے دیا تھا سو، ملزمان کی بریت یقینی تھی۔ یہ درست سہی کہ گواہان کے بیانات نے عدالت کو شک میں مبتلا کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالت کو یہ شک کیوں نہ ہوا کہ گواہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس وقوعہ پر ہمیں ملتان کا ایک حکمران دیوان سنگھ یاد آرہا ہے۔ اس کے دربار میں بد دیانتی کا ایک مقدمہ پیش ہوا۔ فریادی کا کہنا تھا کہ اس سے اپنے فلاں دوست کو اشرفیوں سے بھری ایک تھیلی دی تھی مگر اب وہ میری امانت دینے سے انکار کررہا ہے، دیوان سنگھ نے اس کے دوست کو بھی بلالیا۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی امانت نہیں رکھی گئی تھی، دیوان سنگھ نے فریادی سے پوچھا تمہارا کوئی گواہ ہے، جواب نفی میں ملا تو کہا گیا جہاں تم نے اشرفیوں کی تھیلی دی تھی وہاں کوئی درخت وغیرہ ہوگا۔ فریادی نے کہا ہم ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے، اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد میں نے کہا۔ کچھ عرصے کے لیے ملک سے باہر جارہا ہوں تم یہ تھیلی سنبھال کر رکھنا واپس آکر لے لوں گا، دیوان سنگھ نے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ درخت سے کہو، دیوان سنگھ گواہی کے لیے بلارہا ہے، سارے درباری حیران رہ گئے کہ درخت کیسے گواہی دے سکتا ہے مگر خاموشی ہی میں عافیت سمجھی، کچھ دیر گزرنے کے بعد دوسرے فریق سے پوچھا گیا، کیا سپاہی اس درخت تک پہنچ گیا ہوگا؟ ابھی نہیں اس نے جواب دیا۔ سپاہی واپس آیا تو دیوان سنگھ نے کہا، درخت نے گواہی دی ہے کہ تمہیں اشرفیوں کی تھیلی دی گئی تھی۔ سرکار! درخت تو آیا ہی نہیں پھر گواہی کیسے دی!۔ دیوان سنگھ نے کہا اگر تم نے تھیلی نہیں لی تھی تو تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سپاہی اس درخت تک نہیں پہنچا ہوگا۔ منصف انصاف پسند ہو تو حجر اور شجر بھی گواہی دیتے ہیں، مگر جب خدا کی نیابت کے بجائے شیطان کی جانشینی اختیار کرلی جائے تو انصاف کی دیوی بانجھ ہوجاتی ہے۔