بابری مسجد کا فیصلہ آنے سے قبل سیکورٹی سخت ،جیلیں قائم

507
ایودھیا: بابری مسجد کیس کا فیصلہ آنے سے قبل پولیس شہریوں کو ممکنہ صورتحال سے آگاہ کررہی ہے‘ قانون نافذ کرنے والے ادارے مشترکہ گشت کررہے ہیں
ایودھیا: بابری مسجد کیس کا فیصلہ آنے سے قبل پولیس شہریوں کو ممکنہ صورتحال سے آگاہ کررہی ہے‘ قانون نافذ کرنے والے ادارے مشترکہ گشت کررہے ہیں

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارتی عدالت عظمیٰ 17 نومبر سے قبل کسی بھی دن بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنانے والی ہے۔ پورا ملک خاص طور پر ایودھیا اور فیض آباد کے عوام بہت بے صبری سے اس فیصلے کے منتظر ہیں۔ فیصلے کے حوالے سے ان دونوں شہروں کے ساتھ ساتھ دیگر حساس مقامات پر بھی سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ انتظامیہ نے ایودھیا میں لوگوں کے اجتماع پر پابندی لگا دی ہے، جب کہ ریاست میں نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لیے نیم فوجی دستوں کے 400 اضافی جوان تعینات کیے جا رہے ہیں۔ اضافی سیکورٹی اہل کار ایودھیا اور فیض آباد کے علاوہ 12 حساس اضلاع میں تعینات کیے جائیں گے۔ فیض آباد پولیس نے سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد کی نگرانی کے لیے 16 ہزار رضا کار تعینات کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ضلع امبیڈکر نگر میں مختلف اسکولوں میں 8عارضی جیلیں بنائی گئی ہیں۔ وزیر اعظم نریند رمودی نے تمام وزار کو ہدایت کی ہے کہ وہ فیصلے سے قبل اور اس کے بعد بیانات دینے میں محتاط رہیں۔ غیر ضروری تبصروں سے بچیں اور فیصلے کے خیر مقدم کا ماحول بنانے میں معاون بنیں۔ دیگر سیاسی، سماجی، مذہبی اور روحانی شخصیات کی جانب سے بھی قیام امن کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے اس سلسلے میں مسلمان اور ہندو شخصیات کے ساتھ کئی اجلاس کیے ہیں۔ مختار عباس نقوی کا کہنا ہے کہ ملک میں قیام امن کو برقرار رکھنا ہے۔ نہ تو جیت کا جشن منانا ہے اور نہ ہار کا افسوس کرنا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن کمال فاروقی نے بتایا کہ اس قسم کی ملاقاتوں میں قیام امن پر زور دیا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس اور مسلمان علما کی جانب سے بھی اپنے طور پر اجلاس اور قیام امن کی اپیل کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ 16 اکتوبر کو محفوظ کیا تھا۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔ مذکورہ بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس ایس اے بوبڈے، ڈی وائی چندر چوڑ، اشوک بھوشن اور ایس عبد النذیر شامل ہیں۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے اعلان کیا تھا کہ 18 نومبر کو چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہر صورت اس کیس کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ خیال رہے کہ ہندو اس مقام پر رام جنم بھومی کا دعویٰ کرتے ہیں، جب کہ مسلمان اس بے بنیاد دعوے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ یاد رہے کہ 6دسمبر 1992 کو وشوہندو پریشد کی اپیل پر ایودھیا میں واقع اس تاریخی مسجد کے نزدیک ہندوؤں کا ایک بڑا اجتماع ہوا تھا، جس نے اسے شہید کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہاں ایک عارضی مندر بنا دیا گیا تھا، جس میں آج تک پوجا ہو رہی ہے۔