بڑھتی ہوئی مہنگائی، ذمے دار کون؟

227

پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت گرانے کے لیے جمعیت علمائے اسلام ف اور مسلم لیگ نواز کے ساتھ مل کر سر توڑ جدوجہد کرہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے صرف ایک سال میں اس قدر مہنگائی کردی ہے کہ قوم چلا رہی ہے اور غریب کا جینا محال ہوچکا ہے۔ لیکن خود پیپلز پارٹی کا یہ حال ہے کہ وہ کراچی سمیت پورے صوبے میں دودھ دہی، سبزی، روٹی اور روزہ مرہ کی دیگر اشیاء کو اپنے مقرر کردہ نرخوں کے مطابق بھی فروخت کرانے میں ناکام ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں گزشتہ دس سال کی حکمرانی اور وفاق میں 2008 تا 2013 کی حکومت کے دوران جو کچھ کرتی رہی وہ بھی لوگ نہیں بھلا سکے جبکہ مسلم لیگ نواز حکومت نے 2013 سے 2018 تک عوام کو جس مہنگائی اور بے یقینی کی صورتحال سے دوچار کیا اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرض میں جس طرح اضافہ کیا اس کے نتیجے میں قوم اب مشکلات میں پھنس چکی ہے۔
پیپلز پارٹی سندھ میں مسلسل تیسرے 5 سالہ دور کو مکمل کرنے کی کوشش کررہی ہے اس گیارہ سالہ دور میں دودھ 50 روپے لیٹر اور دہی 60 روپے کلو سے بڑھ ایک سو دس روپے اور ایک سو 60 روپے فی کلو تک کردیا گیا۔ اس عرصے میں پٹرولیم اشیاء کی قیمتیں کم ہوکر 87 روپے تک بھی آئی مگر شیر فروشاں نے نہ دودھ کے نرخ کم کیے اور نہ ہی دہی پر فی کلو 40 سے 55 روپے منافع لینے کا سلسلہ ختم کیا۔ صوبائی حکومت روزہ مرہ کی اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے محکمہ پرائسز و کوالٹی کنٹرول بھی چلارہی ہے۔ جبکہ سندھ کے 6 ڈویژنوں میں کمشنر اور 23 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز بھی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے خصوصی اختیارات رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود ڈویژنل کمشنرز اور نہ ہی بیورو سپلائی اینڈ پرائسز کا محکمہ دودھ دہی سمیت روز مرہ کی اشیاء کو مقررہ قیمتوں کے مطابق فروخت کرانے میں ناکام ہے۔ کراچی میں کمشنر نے دودھ کے نرخ 96 روپے فی لیٹر مقرر کیے ہوئے ہیں مگر یہاں دودھ ایک سو دس روپے فی لیٹر کے حساب سے بلا خوف فروخت کیا جارہا ہے۔ اسی طرح دہی شہر میں ایک سو 60 تا 180 روپے فی کلو فروخت کیا جارہا۔ سندھ میں کنزیومر کورٹس کے قیام کا فیصلہ کیا جاچکا ہے لیکن عملے اور عمارتوں کی کمی کی وجہ سے یہ عدالتیں تاحال فعال نہیں ہوسکیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے یہ ایسا کاروباری ریجن ہے جہاں صارفین کی فلاح اور انہیں مقرر کردہ نرخوں کے مطابق اشیاء کی فروخت کے لیے صارفین کے نام پر مختلف تنظیمیں بھی قائم ہیں مگر آج تک یہ سمجھ میں نہیں آسکا کہ یہ انجمنیں صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہیں یا تاجروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے فعال ہیں۔ انجمن شیر فروشاں کے سابق سیکرٹری و سابق کونسلر اور بزرگ سماجی کارکن نذر محمد شیخ کا کہنا ہے کہ دودھ اور دہی فروشوں نے ان دنوں لوٹ مار کی حد کی ہوئی ہے اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایسی لوٹ مار اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی اور یہ بھی کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ ان کے خلاف کارروائی بھی نہیں کی جاتی۔ نذر محمد کا کہنا تھا کہ کراچی میں سبزی ترکاری بھی من مانی قیمتوں سے فروخت کی جاتی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ڈھائی کروڑ کی آبادی میں صرف ایک سبزی منڈی کا ہونا ہے۔ یہ سبزی منڈی بھی شہر سے دور سپر ہائی وے پر قائم ہے شہر سے دور منڈی ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں سبزی فروش مقرر کردہ قیمتوں کے بجائے مہنگے داموں سبزی فروخت کیا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے کراچی میں پانچ سبزی منڈیوں کے قیام کا اعلان کیا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہیں کرایا جاسکا جبکہ ان کی حکومت ختم ہوئے بھی گیارہ سال گزر چکے۔
یہ بات درست ہے کہ کراچی میں فوری طور 5 سبزی منڈیاں اور جوڑیا بازار طرز کے تین تھوک قیمتوں کی مارکٹیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مزید تین مذبح کا بھی قیام ناگزیر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ شہر کی ضروریات کے تحت نئی نئی سبزی منڈیوں اور تھوک اشیاء کی فروخت کے بازاروں کے قیام پر توجہ دے تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولت حاصل ہوسکے اور روزگار کے نئے اور وسیع ذرائع بھی پیدا ہوسکیں۔