تیز گام… حادثے سے بڑا سانحہ

332

اگلے حادثے تک کے لیے مباحثہ شروع ہوگیا ہے کہ تیز گام میں آگ کا سبب چولہے پر چائے بنانا تھا یا شارٹ سرکٹ۔ حکومت کے پاس طاقت ہے، میڈیا ہے اور اس نے یہ تاثر مستحکم کردیا ہے کہ کچھ لوگ تو چائے بنارہے تھے، کسی نے چولہا دھماکے سے پھٹنے کی خبر دے دی۔ ہر طرف کی قیاس آرائیوں کو ایک طرف رکھ دیں پاکستان میں 72 برس سے ریلوے حادثات ہورہے ہیں، درجنوں لوگ ریلوے کے وزیر رہ چکے ہیں، شاید پہلی اور آخری مثال محمد خان جونیجو کی تھی جنہوں نے استعفیٰ دیا تھا۔ پہلے کے حادثات کے بارے میں تو طرح طرح کے لطیفے مشہور ہیں جب ایک ہی ٹریک پر ٹرینیں چلا کرتی تھیں، ایک ٹرین نے پیچھے سے دوسری ٹرین کو ٹکر مار دی، تحقیقات کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ چوں کہ پیچھے سے آنے والی ٹرین نے ٹرین کے آخری ڈبے کو ٹکر ماری ہے اس لیے آئندہ سے آخری ڈبہ نہیں ہوگا۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔ آخری ڈبے کے پیچھے ایک چھوٹا سا جنگلا لگا ہوتا تھا جس میں لالٹین یا لائٹ جل رہی ہوتی تھی کہ یہاں ٹرین کھڑی ہے۔ خیر یہ تو برسبیل تذکرہ یا ازرہ تفنن تھا لیکن حقائق بڑے ہولناک اور افسوسناک ہیں۔ 72 برس بعد اگر ٹرین حادثے پر یہ پتا چلے کہ ٹرین میں خطرے کا الارم نہیں ہوتا، زنجیریں ناکارہ ہیں، آگ بجھانے کے آلات غائب ہیں یا ناکارہ ہیں۔ شیخ رشید احمد دوسری مرتبہ وزیر ریلوے بنے ہیں، لوگ ان سے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں ان کے لیے اس سے اچھا موقع نہیں ہے کہ حادثے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے استعفا دے دیں۔ ممکن ہے مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ تمام وزرا کو ذمے داریوں سے آزادی دلوا دے۔ پہلے استعفا دے کر وہ اپنی ساکھ بچا سکتے ہیں۔
معاملہ استعفے کا بھی نہیں ہے بلکہ نہایت سنجیدگی سے پچھلے اور موجودہ وزرا کو ایک جگہ بیٹھ کر سوچنا ہوگا اگر وہ اپنے ملک کے عوام اور اپنے کام سے سنجیدہ ہیں، انسانی ہمدردی کا جذبہ ان کے دل میں ہے تو کوئی راستہ نکالیں۔ کام کرنے کے بہت طریقے ہیں اگر ارادہ ہے تو راستے بہت۔ اگر حکومت کا الزام درست مان لیا جائے کہ چولہا اور گیس کے سلنڈر پھٹنے سے آگ لگی ہے تو سوال یہ ہے کہ ریلوے اسٹیشنوں پر وہ اسیکنرز کیوں نہیں لگ سکتے جو ائر پورٹس پر ہوتے ہیں۔ کم از کم بڑے پیمانے پر بڑے شہروں سے لوگ چولہے وغیرہ لے کر نہیں جاسکیں گے۔ ٹرینوں میں بھی اسیکنرز لگائے جاسکتے ہیں۔ چلیں یہ مشکل کام ہے تو ٹرینوں میں ایسا خودکار مصنوعی ذہانت کا نظام کیوں نہیں لگ سکتا کہ کسی ڈبے میں دھواں، آتشزدگی وغیرہ ہو تو ٹرین میں کسی کنٹرول روم میں اس کی نشاندہی ہوجائے۔ آگ بجھانے کے آلات ٹرینوں میں کیوں نہیں ہوتے۔ ہمارا تازہ ترین مشاہدہ ہے تیز گام میں راولپنڈی سے کراچی کا سفر کیا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد ٹرین کے ڈبے میں کچھ جلنے کی بو آتی تھی۔ گارڈ سے شکایت کی تو انہوں نے کہا کوئی چیز باہر جل رہی ہوگی۔ لیکن کئی سو میل تک باہر جلنے والی چیز کی بدبو کیونکر ساتھ چلے گی۔ ٹرین میں جگہ جگہ تار لٹک رہے تھے۔ بعض جگہوں پر موٹے موٹے تار ایسے لٹک رہے تھے جیسے ابھی کرنٹ لگے گا کیوں کہ ان کے سِرے کٹے ہوئے تھے اور ٹیپ نہیں کیے گئے تھے۔ حتیٰ کہ باتھ روم میں جہاں پانی بھی ہوتا ہے (ویسے ہوتا کم کم ہی ہے) بجلی کے تار لٹکے نظر آئے۔ 72 برس میں اگر ٹرینوں میں ڈائننگ کار کے معیار کو بہتر بنالیا جاتا تو لوگوں کو کیا تکلیف تھی کہ وہ اپنے کھانے پکانے کا نظام ساتھ لے کر چلتے۔ اب تو ٹکٹ اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ ہر مسافر کو کھانا اور چائے ریلوے انتظامیہ کو دینی چاہیے۔ اس کا نظام وضع کرنا چاہیے، یہ ناممکن نہیں ہے، لیکن ہمارے وزرا کا سارا زور صرف لیپا پوتی پر ہوتا ہے۔ شیخ رشید صاحب کا زور نئی نئی ٹرینوں کے افتتاح پر ہے۔ اتنی ٹرینوں کا افتتاح کرکے ایسے حادثات کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ جو سرمایہ ان پر خرچ ہوتا ہے وہی سرمایہ نظام کی بہتری پر لگایا جاسکتا ہے۔ اس پر یاد آیا کہ 60ء کے عشرے میں کچھ اسی طرح کا منصوبہ بنایا گیا۔ خانیوال سے لاہور تک الیکٹرک انجن سے ٹرین چلائی جارہی تھی، بتایا یہ گیا کہ اس سے ڈیزل کی بچت ہوگی لیکن خانیوال جنکشن پر ٹرین کے طویل قیام ڈیزل انجن کی جگہ الیکٹرک انجن لگانے اور دیگر تبدیلیوں میں ایک ایک گھنٹہ ٹرین کھڑی رہتی تھی۔ گویا ڈیزل بچا کر وقت برباد کیا جاتا تھا۔ اگر آج کل بھی دو ایک ٹرینوں کے افتتاح کے بجائے خودکار مصنوعی ذہانت کا نظام، آگ بجھانے کے آلات اور اسکینرز اور ٹریکرز وغیرہ نصب کرنے پر توجہ دی جائے تو صورتِ حال بہتر ہوسکتی ہے۔ تربیت یافتہ عملہ بہت ضروری ہے۔ آج کل بھی ٹرین میں سرکاری عملے کے بجائے ٹھیکے دار کے آدمی موجود ہیں۔ ائر کنڈیشن کلاس میں داخل ہوں تو کمپارٹمنٹ میں آپ کے کمرے یا کمپارٹمنٹ کے باہر لگی ہوئی کرسیوں اور میز پر کمبلوں اور تکیوں کا ڈھیر لگا ہوا نظر آئے گا۔ اس کی قیمت ایڈوانس وصول کرکے مسافروں کو دیا جارہا تھا۔ ہم نے ایک کمبل زیادہ اٹھالیا کیوں کہ وہ پانچ سو کا نوٹ لے کر گیا اور باقی رقم لے کر واپس نہیں آیا۔ لیکن جوں ہی ہم نے کمبل اٹھایا ایک آدمی نے بغیر اجازت دروازہ کھولا اور سوال کیا کتنے کمبل اٹھائے ہیں۔ ابھی… گویا وہ نگرانی پر مامور تھا اگر ٹھیکے دار کے آدمی اتنی سخت نگرانی کرسکتے ہیں تو ریلوے کے تربیت یافتہ ملازم چولہے وغیرہ جلنے ہی نہ دیں۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں، کیوں کہ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں تو حادثہ ہوا 75 افراد جھلس گئے کچھ رقم جاں بحق ہونے والوں کے ورثا اور کچھ زخمیوں کو دینے کا اعلان کیا گیا اس میں بھی ظالم لوگ دو نمبری کرجاتے ہیں۔ تحقیقات کا اعلان ہوگیا اور تحقیقات ہوتی رہیں گی، اگلے حادثے تک (خدانخواستہ) راوی چین لکھ رہا ہے۔ یہ حادثے سے بڑا سانحہ ہے۔ ہر حادثے کے بعد دو تین روز تک شور مچتا ہے اس کے بعد ڈھٹائی اور دعوے۔ایک اور پہلو قابل غور ہے کہ جس انداز سے آگ لگی اور پھیلی ہے اسے محض شارٹ سرکٹ یا چولہے کی آگ نہیں کہا جاسکتا۔ کراچی والے ایسی آگ دیکھ چکے ہیں۔ 1986ء کے شیعہ سنی فسادات، ایم کیو ایم کی ہڑتالوں اور سانحہ بلدیہ ٹائون کے واقعات بڑے معروف ہیں۔ اس پہلو سے بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ آگ اس قدر تیزی سے کیسے پھیلی۔