خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان

665

طبی ماہرین نے کراچی میں نیوز کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہر تیسرا فرد پژمردگی یا ذہنی دبائو میں مبتلا ہے اور پاکستان میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پژمردگی یا Depression عالمی سطح پر ایک نفسیاتی عارضہ بن کر اُبھر چکا ہے۔ طبی ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین مردوں سے زیادہ خودکشی کررہی ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق خودکشی کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں غربت، بیروزگاری، مایوسی، افسردگی، غصہ، افراتفری، پولیس تشدد، اعتماد کی کمی اور امتحان میں کم نمبر آنا شامل ہیں۔ طبی ماہرین نے اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ کراچی میں 50 لاکھ سے زیادہ افراد کسی نہ کسی نفسیاتی عارضے بالخصوص ڈپریشن یا اضطراب میں مبتلا ہیں۔
(روزنامہ ڈان کراچی۔ 10 اکتوبر 2019ء)
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں جس میں خود رہنما اور ماہرین رہنمائی کے محتاج ہیں۔ مثلاً مذکورہ نیوز کانفرنس کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ ماہرین نے یہ تو بتایا کہ ملک میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ خودکشی کے رجحان میں اضافے کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟۔ آپ کہیں گے کہ انہوں نے بتایا تو ہے کہ اضطراب، پژمردگی یا ڈپریشن، یاسیت، غصہ، غربت اور بیروزگاری خودکشی میں اضافے کا سبب ہیں مگر آپ غور کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جن ’’اسباب‘‘ کو انہوں نے خودکشی کا سبب قرار دیا ہے وہ تو خود ’’نفسیاتی امراض‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثلاً اگر یاسیت یا اضطراب لوگوں کو خودکشی پر مائل کررہے ہیں تو اس سوال کا پیدا ہونا فطری بات ہے کہ خود یاسیت یا اضطراب کیوں پیدا ہورہے ہیں؟ مذکورہ نیوز کانفرنس کی زیادہ بڑی ناکامی یہ تھی کہ اس میں شریک تمام ماہرین مسلمان تھے مگر ان میں سے کسی نے بھی نفسیاتی امراض اور خودکشی میں اضافے کے رجحان کو مذہبی تناظر میں دیکھنے اور بیان کرنے کی رتّی برابر بھی کوشش نہیں کی۔ حالاں کہ ہمارے تمام نفسیاتی امراض کا ہماری بدلی ہوئی روحانی، اخلاقی اور عالمی ساخت سے بہت گہرا تعلق ہے۔
جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ 20 ویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ ٹامس مان کی یہ بات سو فی صد درست ثابت ہوئی۔ اس تناظر میں 21 ویں صدی کو اقتصادیات کی صدی قرار دیا جارہا ہے اور لکھنے والے انسانی تقدیر کو معاشی یا اقتصادی اصطلاحوں میں تحریر کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر چیز کو اقتصادیات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ خودکشی کے بارے میں بھی عام خیال یہ ہے کہ یہ غربت اور بیروزگاری کا نتیجہ ہے۔ طبی ماہرین نے اپنی نیوز کانفرنس میں غربت اور بیروزگاری کو خودکشی کے اسباب میں شامل کیا ہے۔ بلاشبہ بعض لوگوں کے لیے غربت اور بیروزگاری اتنا بڑا مسئلہ ہوسکتی ہے کہ وہ اس کی وجہ سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیں۔ نبی اکرمؐ نے ایسی غربت سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے جو انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔ انسان بسا اوقات ایسی غربت کا تجربہ کرتا ہے کہ اسے لگتا ہے اس کی زندگی اور کائنات میں خدا موجود نہیں لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں خودکشی کی شرح غریب اور ترقی پزیر ملکوں میں خودکشی کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ آئیے اس سلسلے میں 2016ء کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2016ء میں ایک لاکھ افراد پر مختلف ممالک میں خودکشی کی شرح یہ رہی۔ پاکستان میں 2.6 فی صد، بھارت میں 16.3 فی صد امریکا میں 15.6 فی صد، آسٹریا میں 15.6 فی صد، کینیڈا میں 12.8 فی صد، ڈنمارک میں 12.8 فی صد، جرمنی میں 13.6 فی صد، جاپان میں 16.6 فی صد، جنوبی افریقا میں 11.9 فی صد، برطانیہ میں 8.9 فی صد اور جنوبی کوریا میں 26.9 فی صد۔
(ڈان۔ 17 اکتوبر 2019ء)
ان اعداد و شمار سے ثابت ہے کہ جن ممالک میں غربت اور بیروزگاری کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے وہاں خودکشی کی شرح غریب اور ترقی پزیر ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ غربت اور بیروزگاری خودکشی کا سبب نہیں بن سکتے مگر اس مسئلے کو ذرا گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک چیز ہے غربت، ایک چیز ہے غربت کا احساس اور اس کا نفسیاتی اثر۔ غربت آج سے سو سال اور پانچ سو سال پہلے بھی موجود تھی مگر اس وقت اس کا احساس اتنا شدید نہیں تھا جتنا آج ہے۔ دوسری بات یہ کہ پرانے زمانے میں معاشرہ غریبوں کو مکمل طور پر ’’ترک‘‘ نہیں کرتا تھا۔ منشی پریم چند کے افسانے ’’کفن‘‘ کے دونوں بنیادی کردار اتنے غریب ہیں کہ ان کے پاس اپنے گھر کی ایک عورت کو کفن مہیا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ مگر انہیں معلوم ہے کہ معاشرہ ان کی مدد کو آئے گا اور معاشرہ واقعتا ان کی مدد کو آتا ہے مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے ریاست ہی نے نہیں معاشرے نے بھی فرد کو ’’ترک‘‘ کرنا شروع کردیا ہے۔ چناں چہ غریب فرد کے لیے اس کی غربت کا احساس شدید بلکہ جان لیوا بننے لگا ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے حقیقی اسباب کیا ہیں؟۔
میں سوال کا جواب ایک فقرے میں دیتا ہوں تو کہا جائے گا کہ خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان ’’معنی کے بحران‘‘ کا نتیجہ ہے۔ لیکن یہ بات وضاحت طلب ہے۔ آج سے تین سو سال پہلے کی دنیا اپنی اصل میں مذہبی دنیا تھی۔ یہ ایک ’’خدا مرکز‘‘ دنیا تھی اور زندگی کے تمام معنی اور جلال و جمال کا سرچشمہ خدا تھا۔ اس مذہبی دنیا میں جنگیں تھیں، تصادم تھا، آویزش تھی، غربت تھی، وبائیں اور ان سے ہونے والی ہلاکتیں تھیں۔ مگر اس دنیا میں شاذ ہی کوئی خودکشی کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دنیا میں معنی کا بحران نہیں تھا۔ خدا کی موجودگی کے شعور سے زندگی کے ہر پہلو کی توجیہ ہوسکتی تھی۔ اس توجیہ کے دو پہلو تھے۔ یہ توجیہ ’’جامع‘‘ بھی تھی اور ’’تسکین بخش‘‘ بھی۔ مگر مغرب نے خدا کا انکار کردیا اور اس نے مادے کو اپنا خدا بنالیا۔ خدا کے انکار سے وحی کا انکار پیدا ہوا۔ وحی کے انکار سے ’’عقل پرستی‘‘ بلکہ ’’عقل کی خدائی‘‘ نمودار ہوئی۔ اس خدائی سے سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ زندگی کی ایک توجیہ اور ایک تعبیر ممکن نہ رہی۔ نتیجہ یہ کہ زندگی دیکھتے ہی دیکھتے ’’تعبیروں کا جنگل‘‘ بن گئی۔ تعبیروں کے جنگل میں معنی کا بحران پیدا ہونا ہی تھا۔ ہم نے عرض کیا ہے کہ ’’مذہبی مفہوم‘‘ جامع بھی تھا اور تسکین بخش بھی مگر مغرب نے عقل کی خدائی کے زیر اثر زندگی کی جو تعبیریں پیدا کیں وہ نہ ’’جامع‘‘ ہیں نہ تسکین بخش۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مغرب کی معاشیات کہتی ہے انسان ایک معاشی حقیقت ہے، مغرب کی سیاسیات کہتی ہے انسان ایک سیاسی حیوان ہے، مغرب کی حیاتیات کہتی ہے کہ انسان ایک ’’حیاتیاتی حقیقت‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ اس فکری انتشار میں ’’فکری وحدت‘‘ ممکن ہی نہیں۔ چوں کہ مغرب کے تمام فکری سانچے اپنی اصل میں عقلی سانچے ہیں اس لیے مغرب کا کوئی فکری سانچہ انسان کے جذباتی وجود کی تسکین کا سامان مہیا نہیں کرپاتا۔ چناں چہ مغرب کا انسان فکری سطح پر بھی ’’پیاسا‘‘ ہے اور جذباتی سطح پر بھی پیاسا ہے۔ یہی پیاس اسے خودکشی کی طرف مائل کرتی ہے۔
اسلام کی فکری کائنات میں انسان کی زندگی ’’تقدیر‘‘ اور ’’تدبیر‘‘ کے درمیان بسر ہوتی ہے۔ ایک باشعور مسلمان جانتا ہے کہ بہت سی چیزیں ’’تقدیری امر‘‘ ہیں اور ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ تقدیر کے آگے سر تسلیم خم کرے، اسے خوش دلی سے قبول کرلے، کیوں کہ کاتب تقدیر کوئی اور نہیں خود خدا ہے۔ تقدیر کو تسلیم کرنے سے انسان میں صبر بھی پیدا ہوتا ہے اور شکر بھی۔ صبر انسان کو مصائب و آلام سے بلند ہو کر زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے اور شکر سے زندگی میں ایک جمال پیدا ہوتا ہے جو انسان کی طبیعت میں موجود بوجھل پن کو دور کرکے اسے خوشگوار بناتا ہے۔ ’’تدبیر‘‘ انسان کو برے حالات کی مزاحمت اور ان پر فکر و عمل کے ذریعے غالب آنا سکھاتی ہے۔ چناں چہ تقدیر اور تدبیر کی کائنات میں سانس لینے والا انسان خود کشی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک مسلمان کے لیے زندگی کی معنویت اتنی اہم ہے کہ معنویت کا فرق ایک جگہ موت کو ’’خودکشی‘‘ بنادیتا ہے اور دوسری جگہ موت کو ’’شہادت‘‘ کے مرتبے پر فائز کردیتا ہے۔ آپ غور کریں گے تو پائیں گے کہ خودکشی کرنے والا انسان ایک ’’مایوس انسان‘‘ ہوتا ہے۔ اپنے خدا، اپنی تقدیر اور اپنی تدبیر کی اہلیت سے مایوس انسان۔ اس کے ہاتھ میں نہ تقدیر کی ڈھال ہوتی ہے نہ تدبیر کی تلوار۔
کہنے کو پاکستان سمیت مختلف مسلم معاشرے ’’اسلامی معاشرے‘‘ ہیں۔ مگر اسلام کوئی ’’Label‘‘ یا ’’Name Plate‘‘ نہیں۔ اسلام ایک وجودی تجربے یا Existential experience کا نام ہے۔ مگر بدقسمتی سے تمام مسلم معاشرے اس حد تک مغرب زدہ ہوچکے ہیں کہ اکثر مسلمانوں کا ’’باطن‘‘ مغرب ہے اور ’’ظاہر‘‘ اسلام۔ مغرب صرف ہماری سیاست اور ہماری معیشت نہیں مغرب ہماری خواہش ہے، آرزو ہے، تمنا ہے، ہمارا خواب ہے، اصولی اعتبار سے دین ہماری ’’محبت‘‘ ہے اور دنیا ہماری ’’ضرورت‘‘۔ مگر مغرب کے زیر اثر ’’عملی صورتِ حال‘‘ یہ ہے کہ دنیا ہماری ’’محبت‘‘ ہے اور دین کو ہم نے ’’بقدر ضرورت‘‘ اختیار کیا ہوا ہے۔ بلاشبہ ایک سطح پر دین ہماری ’’آرزو‘‘ ہے مگر ہماری ’’جستجو‘‘ آرزو سے ہم آہنگ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین ہماری ’’آرزو‘‘ ہے اور دنیا ہماری ’’جستجو‘‘۔ ان معاملات کا نتیجہ یہ ہے کہ دین کو ہم نے ’’برکت‘‘ تک محدود کردیا ہے اور دنیا ہماری ’’حرکت‘‘ بن گئی ہے۔ چناں چہ ہماری مادہ پرستی ہمیں انہی کیفیات سے دوچار کررہی ہے جن کیفیات میں مغرب کے لوگ مبتلا پائے جارہے ہیں۔ اصول ہے ’’جسمانی خودکشی‘‘ وہی شخص کرتا ہے جو پہلے ’’روحانی خودکشی‘‘ کرچکا ہو۔ جن لوگوں کی روحانی زندگی سلامت ہوتی ہے انہیں خودکشی کا خیال تک نہیں آتا۔ لیکن جن لوگوں کا تعلق بااللہ کمزور ہوجاتا ہے ان کا انسانوں سے تعلق بھی سرسری اور سطحی ہوجاتا ہے، جو شخص نہ خدا کا دوست ہو نہ انسانوں کا وہ نفسیاتی مریض نہیں بنے گا اور خودکشی نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟۔