کیا کراچی محفوظ سٹی ہے؟

270

سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکمرانی قائم ہوئے گیارہواں سال گزر رہا ہے۔ سوائے امراض قلب کے ایمرجنسی سینٹرز کے قیام اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیووسیکولر ڈیزیز میں مفت علاج کی سہولت کے کوئی ایسا قابل ذکر کام حکومت نہیں کراسکی۔ مجموعی طور پر کراچی سمیت صوبہ تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی کی فراہمی و نکاسی آب، ٹرانسپورٹ اور سیکورٹی کے نظام سے مبرا ہے۔ 2016 میں عدالت عظمیٰ کے حکم پر سندھ حکومت نے کراچی میں دس ہزار کلوز سرکٹ ٹی وی کیمروں کی تنصیب کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے دس ارب روپے مختص کردیے۔ مگر چار سال گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ فائلوں سے باہر نہیں آسکا۔ واقف حال لوگوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت کیمروں کی تنصیب کے مقامات کی نشاندہی بھی کردی گئی اور اس ضمن میں کنسلٹنٹ فرم نے رپورٹ بھی جمع کرادی گئی تھی۔ جبکہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی جلد سے جلد کلوز سرکٹ کیمروں کی تنصیب کے خواہش مند ہیں تاکہ جرائم کی وارداتوں سمیت تمام واقعات کو ویڈیو ریکارڈ تیار ہوتا رہے۔
وزیراعلیٰ کی ہدایت اور سیکرٹری داخلہ عبدالکبیر کی غیر معمولی دلچسپی کے باوجود کیمروں کی تنصیب کیوں نہیں کی جارہی؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے پولیس کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کیا گیا لیکن کسی نے اس سوال کا واضح جواب نہیں دیا۔ تاہم چند ذمے داروں کا کہنا یہ تھا کہ کیمروں کی تنصیب کے منصوبے کو مکمل کرنے میں پولیس کی عدم دلچسپی ہے۔ پولیس فورس کو معلوم ہے کہ کیمرے نصب ہونے سے ان کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھ جائیں گی۔ اعلیٰ صوبائی حکام کے ساتھ وزیراعلیٰ بھی ازخود پولیس کی معمولات دیکھ سکیں گے۔ ایسی صورت میں سڑکوں پر عوام کا تحفظ فرائض کی ادائیگی کے نام پر فعال پولیس موبائل کے اہلکاروں اور دیگر فورسز کی کارکردگی سامنے آجائے گی۔ یہی نہیں بلکہ کسی بھی وادات کے ملزمان کی فرار ہونے اور واردات کی فلم سب کے سامنے آجائے گی۔ جس سے پولیس اور دیگر فورسز کی کارکردگی عیاں ہوجائے گی۔ پولیس فورس کے نااہل اور کرپٹ افسران یہی نہیں چاہتے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ ڈاکوؤں، رہزنوں اور قاتلوں کے چہروں کے ساتھ ان سب کی کارکردگی کا پول بھی کھل جائے گا۔ خیال رہے کہ ان دنوں شہر کے مختلف ڈیڑھ سو مقامات پر صرف 22 سو کیمرے نصب ہیں۔ جبکہ کراچی بھر میں کم ازکم 70 ہزار کیمروں کی ضرورت ہے۔ اس لیے دس ہزار کیمرے اگر نصب بھی کردیے گئے تو اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا تاہم ان کیمروں کی تنصیب سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔
سرکاری ذرائع کا یہ کہنا کہ اب تک جو کیمرے نصب ہیں وہ صرف شاہراہ فیصل پر میٹروپول ہوٹل تا ملیر ہالٹ، راشد منہاس روڈ، سر شاہ سلمان روڈ، نواب صدیق علی خان روڈ، شاہراہ پاکستان، آئی آئی چند ریگر روڈ، برنس، عبداللہ ہارون روڈ اور ایم اے جناح روڈ کے منتخب مقامات پر لگے ہیں۔ جبکہ شہر کے ضلع ملیر، کورنگی، جنوبی اور غربی کے بیش تر مقامات ان کیمروں سے مبرا ہے جہاں محض نجی اداروں کے کیمروں کے سوا کوئی کیمرا موجود نہیں ہے۔
حکومت نے شہر کو محفوظ بنانے کے لیے سیف سٹی منصوبہ 2011 میں بنایا تھا لیکن اس منصوبے پر عملدرآمد نہیں ہوسکا اب یہ منصوبہ ختم کردیے جانے کی بازگشت ہے۔ صوبائی حکومت اگر واقعی عوام کے تحفظ اور مجرموں کو پکڑنے کا عزم رکھتی ہے تو اسے چاہیے کے نجی اداروں، صنعت کاروں اور تاجروں کے تعاون سے پورے شہر میں کلوز سرکٹ کیمروں کا جال بچھادے تاکہ ’’چڑیا کے پر مارنے‘‘ کی ویڈیو بن سکے اور ہر واردات کے ملزمان پکڑے جاسکیں۔ کیمروں کے نظام کو اس طرح مربوط بنایا جاسکے کہ انہیں اہم سیکورٹی کے اداروں سمیت سرکاری اعلیٰ حکام کے ساتھ ہر شخص ضرورت کے تحت ایپ کے ذریعے مانیٹر کرسکے اور شہر کو سیکورٹی پروف بنایا جاسکے۔ یہی اس بڑے شہر کا تقاضا ہے۔ کیونکہ اب بھی شہر بھر میں مجموعی طور پر اوسطاً یومیہ ڈکیتی رہزنی، نقب زنی اور قتل کی چار درجن وارداتیں ہوتی ہیں جن میں سے صرف نصف وارداتوں کو ریکارڈ میں لایا جاتا ہے۔ شہریوں کی اکثریت اپنے ساتھ ہونے والی وارداتوں کی رپورٹ درج کرانے سے گریز کرتی ہے جبکہ جو رپورٹ کی جاتی ہیں اس پر فوری مقدمات درج کرنے سے پولیس کے گریز کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کیمرے نصب کیے جانے سے تمام وارداتوں کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا جاسکے گا۔ چاہے ان وارداتوں میں پولیس اہلکار ہی ملوث ہوں۔