ایف اے ٹی ایف ۔ حکومت کے لیے ایک خطرہ

167

پیرس میں منعقدہ حالیہ ایف اے ٹی ایف (FATF) کے چھ روزہ اجلاس کے بعد سخت تنبیہ کے بعد پاکستان بلیک لسٹ ہونے سے بچ گیا اور اسے فروری 2020ء تک کا مزید وقت دے دیا گیا جس میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ کو روکنے کے لیے پاکستان کو مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان کے لیے اس بچائو میں چین، ترکی اور ملائیشیا کی حمایت شامل ہے، جب کہ انڈیا تو پہلے ہی یہ اعلان کررہا تھا کہ اس مرتبہ پاکستان بلیک لسٹ ہوجائے گا، اس وقت صرف دو ممالک ایف اے ٹی ایف کی جانب سے بلیک لسٹیڈ ہیں، ایران اور شمالی کوریا۔ موجودہ اجلاس میں 206 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی اور ہر ملک نے اپنے ہاں کیے گئے اقدامات کی تفصیل سے شرکا کو آگاہ کیا۔ دنیا میں اس وقت رشوت، ناجائز منافع خوری، اسمگلنگ اور دوسرے غلط اور غیر قانونی طریقوں سے کمائی گئی بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لیے مختلف طریقے حرام خور لوگ اختیار کرتے ہیں۔ چناں چہ قانون میں جہاں جہاں سوراخ ہیں، بچائو کے راستے ہیں یا گنجائش ہے اُن تمام کو ختم کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ موجودہ اجلاس میں پاکستان سمیت پندرہ ممالک کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ آئس لینڈ، منگولیا اور زمبابوے کو گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا۔ سری لنکا، تیونس اور ایتھوپیا گرے لسٹ سے باہر آگئے جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے گرے لسٹ سے باہر آنے کے لیے اسے 27 اقدامات کرنا تھے جب کہ پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد پتا چلا کہ پاکستان نے صرف 5 نکات پر اقدامات کیے ہیں۔ 22 اقدامات باقی ہیں جس میں سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کے قوانین میں تبدیلی، ایف آئی اے کے مزید اقدامات، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کے درمیان منی لانڈرنگ کے سلسلے میں تعاون، فنانشیل ٹرانسپکشن کا جائزہ، مختلف محکموں کے درمیان تعاون، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون، فارن ایکسچینج ریگولیشن میں مزید بہتری جیسے معاملات شامل ہیں۔ یہ بھی المیہ ہے کہ پاکستان میں مختلف سیاسی اور کاروباری شخصیات پر منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں مگر وہ الزام ہی رہے، ثابت نہ ہوسکے اور کسی شخص کو سزا نہ ہوسکی۔ بے نامی اکائونٹس کے معاملے میں بھی یہی کہانی دہرائی گئی، بھاری اکائونٹس سامنے آئے لیکن کسی شخص کو متعین طور پر ذمے دار نہیں ٹھیرایا جاسکا بلکہ یہ بھی ہوا کہ بعض لوگ دوبارہ اپنے عہدوں پر بحال ہوگئے۔ فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اس سلسلے میں انتظامی اور فوجداری سزا دی جانی چاہئیں۔
ایف اے ٹی ایف کو دنیا کے سات صنعتی اور ترقیاتی یافتہ ممالک کے گروپ (G-7) نے 1989ء میں اس غرض کے لیے قائم کیا تھا کہ دنیا میں جاری منی لانڈرنگ جیسا قبیح عمل آسان نہ رہے اس کا ہیڈ کوارٹر پیرس میں او ای سی ڈی (OECD) کی عمارت میں بنایا گیا جو دنیا کے صنعتی ممالک کی ایک تنظیم ہے۔ 2001ء میں دہشت گردی کے لیے رقومات کی فراہمی کی روک تھام اس ادارے کی ذمے داریوں میں شامل ہوگئی۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد اس ادارے کی اہمیت میں ایک دم اضافہ ہوگیا اور منی لانڈرنگ کے بجائے دہشت گردی کے لیے فنڈ کی منتقلی کو روکنا اس ادارے کی ترجیح نمبر ایک ہوگیا، اس ادارے کے نزدیک دہشت گردی کی تعریف وہی ہے جو مغربی ممالک کرتے ہیں، مثلاً اگر امریکا فلسطینیوں کے قتل عام کے لیے مالی اور فوجی امداد اسرائیل کو فراہم کرتا ہے تو وہ دہشت گردی کی معاونت نہیں ہے۔ پاکستان کا اصل مسئلہ غیر دستاویزی معیشت ہے، یہاں لاکھوں اور کروڑوں کی خریدوفروخت نقد ادائیگی پر کی جاتی ہے، اس وجہ سے بڑی بڑی ٹرانزیکشن کی منی ٹریل ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے، اسی کی آڑ میں منی لانڈرنگ ہوتی ہے جس میں سیاستدانوں بیورو کریٹس اور بینک کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے، اس کے علاوہ درآمد اور برآمد کی مد میں بھی منی لانڈرنگ ہوتی ہے، حکومت اس سلسلے میں معیشت کو دستاویزی بنانے کی کوشش کررہی ہے لیکن بیورو کریٹس کی عدم دلچسپی اور ایف بی آر کی نااہلی کے باعث طرح طرح کے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ تاجروں کی دو روزہ ملک گیر ہڑتال اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں بالآخر حکومت کو جھکنا پڑا اور شناختی کارڈ کی شرط کو موخر کیا گیا۔ دوسری طرف حکومت کے اپنے معاشی مینیجر ناتجربہ کار ہیں جو جذبات میں آکر سخت بیان دے دیتے ہیں اور بعد میں واپس لینا پڑتا ہے۔ معاشی اصلاحات کا سفر نیک شگون ہے مگر یہ بہت صبر آزما اور طویل ہے اس لیے حکومت کو چاہیے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے تا کہ منزل تک پہنچ سکے۔