سیدنا سلمان فارسیؓ کا قبول اسلام اور علامات نبوت

293

 

سیدنا سلمان فارسیؓ کے قبول اسلام کا واقعہ خود انہی کی زبانی سنیے۔ فرماتے ہیں کہ میں صوبہ ’’اصفہان‘‘ میں ایک جگہ کا رہنے والا ہوں، جس کا نام ’’جے‘‘ ہے۔ میرا باپ اس جگہ کا سردار تھا اور مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا۔ میں نے اپنے قدیم مذہب مجوسیت میں اتنی محنت کی کہ آتش کدہ کا محافظ بن گیا۔ مجھے باپ نے ایک مرتبہ اپنی جائیداد کی حفاظت کے لیے بھیجا۔ راستے میں میرا گزر نصاریٰ کے گرجا سے ہوا۔ میں سیر کے لیے اندر چلا گیا، ان کو نماز پڑھتے دیکھا تو وہ مجھے پسند آگئی۔ میں شام تک ادھر ہی رہا اور ان سے پوچھا کہ تمہارے دین کا مرکز کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ شام میں ہے۔
میں رات واپس گھر آیا تو گھر والوں نے مجھ سے پوچھا کہ تو تمام دن کہاں رہا؟ میں نے سارا قصہ سنایا۔ میرے باپ نے مجھے سمجھایا کہ بیٹا وہ دین اچھا نہیں، اچھا دین مجوسیت ہی ہے مگر میں اپنی رائے پر قائم رہا۔ باپ کو خدشہ ہوگیا کہ میں کہیں چلا نہ جاؤں تو باپ نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر مجھے بند کر دیا۔ میں نے عیسائیوں کو پیغام بھیجا کہ جب شام سے سوداگر اور تاجر آئیں تو مجھے مطلع کریں۔ چنانچہ کچھ تاجر آئے تو انہوں نے مجھے مطلع کردیا۔ جب وہ واپس جانے لگے تو میں نے پاؤں کی بیڑیاں کاٹ ڈالیں اور ان کے ساتھ ملک شام چلا گیا۔
وہاں جاکر میں نے تحقیق کی کہ یہاں پر اس مذہبِ عیسائیت کا سب سے بڑا عالم کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ فلاں گرجے کا فلاں بشپ بڑا ماہر ہے۔ میں اس کے پاس چلا گیا اور بتایا کہ مجھے تمہارے دین میں رغبت ہے اور تمہارے پاس رہ کر تمہاری خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے منظور کرلیا مگر وہ اچھا آدمی نہ تھا، بہت بخیل اور زر پرست تھا۔ جو مال جمع ہوتا وہ اپنے خزانے میں جمع کرلیتا اور غریبوں پر خرچ نہ کرتا۔ جب یہ مرگیا تو اس کی جگہ دوسرا راہب بٹھایا گیا۔ یہ اس سے بہتر تھا، دنیا سے بے رغبت تھا۔ میں اس کی خدمت میں رہنے لگا۔ جب اس کے مرنے کا وقت قریب آیا تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے کسی کے پاس رہنے کی وصیت کرتے جاؤ! اس نے کہا کہ میرے طریقہ پر دنیا میں صرف ایک شخص ہے جو کہ ’’موصل‘‘ میں رہتا ہے، تم اس کے پاس چلے جانا۔ اس کے مرنے کے بعد میں موصل چلا گیا اور اس راہب کو سارا قصہ سنایا اور بتایا کہ میں تمہاری خدمت میں رہنا چاہتا ہوں۔ اس نے منظور کرلیا۔ میں اس کی خدمت میں رہا۔ وہ بہترین آدمی تھا۔ جب اس کی بھی وفات ہونے لگی تو میں نے پوچھا کہ میں اب کہاں جاؤں؟ تو اس نے کہا کہ فلاں شخص ’’نصیبین‘‘ میں ہے، اس کے پاس چلے جانا۔
میں اس کے مرنے کے بعد نصیبین چلا گیا اور اس شخص کو اپنا قصہ سنایا، خدمت میں رہنے کی درخواست کی جو کہ منظور ہوگئی۔ وہ بھی اچھا آدمی تھا۔ جب اس کے مرنے کا وقت آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ میں اب کہاں جاؤں؟ اس نے کہا: ’’غموریا‘‘ میں فلاں شخص کے پاس چلے جانا۔ میں وہاں چلاگیا۔ وہاں بھی اس طرح قصہ پیش آیا۔ وہاں جاکر میں نے کام شروع کردیا اور میرے پاس چند ایک گائے اور کچھ بکریاں جمع ہوگئیں۔ جب اس کی بھی موت کا وقت قریب آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب میں کہاں جاؤں؟ تو اس نے کہا کہ اب زمین پر کوئی شخص ایسا نہیں جو کہ ہمارے طریقہ پر چل رہا ہو۔ البتہ نبی آخرالزمانؐ کے پیدا ہونے کا زمانہ قریب ہے، وہ دینِ ابراہیمی پر عرب میں پیدا ہوں گے، ان کی ہجرت کی جگہ ایسی زمین ہے جہاں کھجوریں کثرت سے پیدا ہوتی ہیں، اس زمین کے دونوں جانب کنکریلی زمین ہے، آپ ہدیہ قبول فرمائیں گے اور صدقہ قبول نہ فرمائیںگے، ان کے دونوں شانوں (کندھوں) کے درمیان مہرِ نبوت ہوگی۔ اگر تجھ سے ہو سکے تو ان کی سر زمین پر پہنچ جا۔
اس کے مرنے کے بعد قبیلہ بنو کلب کے چند تاجر وہاں سے گزرے تو میںنے ان سے کہا کہ اگر تم مجھے اپنے ساتھ عرب لے چلو تو میں بدلہ میں تمہیں گائے اور بکریاں دے دوں گا۔ انہوں نے قبول کر لیا اور مجھے اپنے ساتھ مکہ مکرمہ لے آئے۔ میں نے گائے اور بکریاں ان کو دے دیں مگر انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا کہ مجھے اپنا غلام ظاہر کیا اور مکہ مکرمہ میں بیچ دیا۔ بنو قریظہ کے ایک یہودی نے مجھے خرید لیا اور اپنے ساتھ مدینہ منورہ لے آیا۔ مدینہ منورہ پہنچتے ہی میں پہچان گیا کہ یہ وہی جگہ ہے جس کی نشاندہی غموریا کے پادری نے کی تھی۔ میں مدینہ میں رہتا رہا کہ نبی پاکؐ ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لے آئے۔
نبی پاکؐ قبا میں تشریف فرما تھے۔ اطلاع ملتے ہی جو کچھ میرے پاس تھا میں لے کر حاضر ہوگیا اور عرض کیا کہ یہ صدقے کا مال ہے۔ تو نبی پاکؐ نے خود تناول نہ فرمایا اور صحابہؓ سے فرمایا کہ تم کھالو! میں خوش ہوگیا کہ ایک علامت تو پوری ہوئی۔ پھر مدینہ آگیا اور کچھ جمع کیا۔ پھر خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپؐ بھی مدینہ تشریف لا چکے تھے۔ میں نے کچھ کھجوریں اورکھانا پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ ہدیہ ہے۔ تو نبی پاکؐ نے اس میں سے تناول فرمایا۔ میں نے دل میں کہا کہ دوسری علامت بھی پوری ہوگئی۔ اس کے بعد میں ایک مرتبہ پھر حاضر ہوا۔ اس وقت آپؐ بقیع میں کسی صحابی کے جنازے کے لیے تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام کیا اور پشت کی طرف گھومنے لگا۔ آپ میری منشا سمجھ گئے اور کمر سے چادر کو ہٹا دیا۔ میں نے مہر نبوت کو دیکھا اور جوش میں اس پر جھک گیا۔ اس کو چومتا رہا اور روتا رہا۔ نبیؐ نے فرمایا: میرے سامنے آؤ، میں سامنے آیا اور سارا قصہ سنایا۔
اس کے بعد اپنی غلامی میں پھنسا رہا۔ ایک مرتبہ نبیؐ نے فرمایا کہ اپنے مالک سے مکاتبت (رقم کے بدلے آزادی) کا معاملہ کرلو۔ میں نے اس سے معاملہ طے کیا اور بدلِ کتابت دو چیزیں مقرر ہوئیں۔ ایک یہ کہ چالیس اوقیہ سونا نقد (ایک اوقیہ چالیس درہم کا اور ایک درہم تین یا چار ماشہ کا ہوتا ہے) دوسری یہ کہ تین سو کھجور کے درخت لگاؤں اور ان کی پرورش کروں اور پھل لانے تک ان کی خبر گیری کرتا رہوں۔
چنانچہ نبیؐ نے اپنے دست مبارک سے کھجوریں لگائیں جو کہ اسی سال پھل لے آئیں اور اتفاق سے کسی جگہ سے سونا بھی آگیا۔ نبی پاکؐ نے مجھے مرحمت فرما دیا کہ جاؤ اور اس کو بدلِ کتابت میں ادا کردو۔ میں نے عرض کیا: حضرت! یہ کافی نہیں ہوگا، یہ تھوڑا ہے اور بدلِ کتابت کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ نبی پاکؐ نے فرمایا کہ اللہ جل شانْہ اسی سے پورا فرما دیں گے۔ چنانچہ میں لے کر گیا اور بدلِ کتابت اس میں سے دے دیا۔ سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ میں دس سے زیادہ آقاؤں کے پاس رہا ہوں۔ ان سب کی رقم ادا کردی اور پھر نبی کریمؐ کے ساتھ رہنے لگا۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ، البانی)