جمع بین الصلوٰتین اور دوسری جماعت

293

 

رضی الاسلام ندوی

سوال: میں ایک دینی مرکز کے کیمپس میں واقع مسجد میں پنج وقتہ نمازیں ادا کرتا ہوں۔ اس مرکز میں آئے دن بڑے پروگرام ہوتے رہتے ہیں، جن میں شرکت کے لیے باہر سے مہمان تشریف لاتے ہیں۔ یہ حضرات جمع بین الصلوٰتین کی نیت سے ظہر کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عصر کی نماز اور مغرب کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عشا کی نماز باجماعت پڑھنے لگتے ہیں۔ مسجد میں آنے والوں کی خاصی تعداد مقامی لوگوں کی ہوتی ہے، جنہیں مرکز میں مہمانوں کی آمد کا علم نہیں ہوتا۔ عام نمازوں کے لیے بھی اکثر دوسری جماعت ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ ان کے لیے یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی نماز پڑھی جارہی ہے؟ جمع بین الصلوٰتین کے تحت عصر یا عشا کی نماز پڑھی جارہی ہے یا ظہر یا مغرب کی دوسری جماعت ہورہی ہے؟ عام لوگ ظہر یا مغرب کی دوسری جماعت سمجھ کر اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل سوالات جواب طلب ہیں:
1۔جب عام نمازیوں کو غلط فہمی کا اندیشہ رہتا ہو تو اس طرح مسجد کے اندر جمع بین الصلوٰتین کہاں تک درست ہے؟
2۔جو لوگ ظہر یا مغرب کی نیت سے عصر یا عشا کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں، ان کی نماز ہوگی یا نہیں؟ کیوں کہ امام اور مقتدی دونوں کی نیت الگ الگ ہوگئی۔
3۔اگر مسجد میں اذان یا جماعت کے متعینہ وقت سے پہلے باجماعت نماز ادا کی جائے تو درست ہے یا نہیں؟
جواب: مسجد میں وقتِ ضرورت دوسری جماعت کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ ہیئت تبدیل کردی جائے، یعنی پہلی جماعت مسجد کے جس حصے میں ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر کسی اور جگہ دوسری جماعت کی جائے۔ اگر مسجد میں کچھ مسافر موجود ہوں اور وہ جمع بین الصلوٰتین کے غرض سے دوسری نماز جماعت سے ادا کرنا چاہیں تو وہ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ اگر کچھ مسافر مسجد میں باجماعت عصر یا عشا کی نماز پڑھ رہے ہوں اور کوئی شخص اسے ظہر یا مغرب کی نماز سمجھ کر جماعت میں شامل ہوجائے تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟ بالفاظ دیگر اگر امام اور مقتدی کی نیتیں الگ الگ ہوجائیں۔ امام نے کسی نماز کی نیت کی ہو اور مقتدی کی نیت کسی اور نماز کی ہو تو مقتدی کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟
اس سلسلے میں احناف، مالکیہ اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ نماز کی نیت کے معاملے میں امام اور مقتدی کا اتحاد ضروری ہے۔ اگر امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہے اور مقتدی کی نیت ظہر کی ہے۔ یا امام عشا کی نماز پڑھا رہا ہے اور مقتدی کی نیت مغرب کی ہے تو مقتدی کی نماز درست نہ ہوگی۔ ان کا استدلال اس حدیث نبویؐ سے ہے:
’’امام اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ اس لیے اس سے اختلاف نہ کرو‘‘۔ (بخاری)
البتہ شوافع کہتے ہیں کہ نماز کی صحت کے لیے امام اور مقتدی دونوں کی نمازوں کا ایک ہی ہونا ضروری نہیں ہے۔ نماز کے ظاہری افعال میں یکسانیت ہو تو مقتدی کی نماز درست ہوگی، خواہ اس کی نیت کسی نماز کی ہو اور امام کوئی اور نماز پڑھا رہاہو۔ (الموسوعہ الفقہیہ،کویت)
کسی نماز کا وقت ہوجائے، لیکن ابھی اس کی اذان یا جماعت نہیں ہوئی ہے، کچھ لوگ ہیں۔ جنھیں کسی ضرورت سے فوراً سفر پر نکلنا ہے، وہ مسجد میں اپنی جماعت کرسکتے ہیں۔ البتہ ان کے لیے مناسب ہے کہ مسجد کے جس حصے میں جماعت ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر کسی اور جگہ اپنی جماعت کرلیں۔