پاکستان کا ناقابلِ اعتبار حکمران طبقہ

634

 

 

معروف سیاست دان، تحریک انصاف اور نواز لیگ کے سابق رہنما جاوید ہاشمی نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ قائد اعظم ایمبولینس میں شہید ہوئے، لیاقت علی خان کو باغ میں شہید کیا گیا اور بھٹو کو جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ عجیب صورتِ حال ہے اگر کوئی ’’اُن کی‘‘ بات نہیں مانتا تو اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
(روزنامہ جسارت۔ 24 اکتوبر 2019ء)
جاوید ہاشمی کے اس بیان میں ’’اُن کی‘‘ کا مفہوم عیاں ہے۔ جاوید ہاشمی کے بیان سے دوسری بات یہ واضح ہے کہ وہ قائد اعظم، لیاقت علی خان اور بھٹو کی موت کا ذمے دار بھی ’’اُن کو‘‘ ہی سمجھتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کی یہ باتیں غلط ہوں یا صحیح، ان میں پاکستان کے حکمران طبقے پر ایک بہت ہولناک بے اعتباری موجود ہے۔ حکمران ہر جگہ کے بے اعتبار ہوتے ہیں مگر پاکستان کا حکمران طبقہ جتنا بے اعتبار ہے اس کی کوئی دوسری مثال شاید ہی کہیں موجود ہو۔
پاکستانی قوم 1954ء میں سمجھتی تھی کہ جنرل ایوب ہمارا جرنیل ہے، مگر امریکا کی چند برس قبل شائع ہونے والی خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل ایوب امریکا کے ساتھ خفیہ رابطہ استوار کیے ہوئے تھے۔ جنرل ایوب امریکیوں کو خط لکھ لکھ کر بتا رہے تھے کہ پاکستانی سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل ایوب امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ فوج پاکستانی سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ ملک کی تباہی سنگین مسئلہ ہے۔ چناں چہ پاکستانی سیاست دان ملک تباہ کررہے تھے تو انہیں روکا جانا چاہیے تھا، مگر سوال یہ ہے کہ اس کے لیے امریکا کے جوتے چاٹنے کی کیا ضرورت تھی؟ جنرل ایوب کو جو کرنا تھا خود کرتے، لیکن انہوں نے امریکا کو پاکستان کے داخلی معاملات میں ملوث کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان میں امریکا کی مداخلت بڑھتی ہی چلی گئی اور ایک وقت آیا کہ ہم امریکا کے غلام اور امریکا ہمارا آقا بن گیا۔ اس ’’غلامی‘‘ کا چرچا گھر گھر ہونے لگا تو جنرل ایوب گھبرائے اور ایک کتاب لکھوائی جس کا عنوان تھا:”Friends Not Masters”۔ اس کتاب میں جنرل ایوب نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہم امریکا کے دوست ہیں غلام نہیں۔ لیکن یہ ایک سفید جھوٹ تھا۔ پاکستان کا ایک جرنیل پاکستان کو امریکا کا غلام بنا چکا تھا۔ بعد کے دنوں میں یہ غلامی بڑھتی ہی چلی گئی۔ یہاں تک کہ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو امریکا کی ’’سیاسی طوائف‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ پوری پاکستانی قوم کو یاد ہے کہ 1971ء کے بحران میں جنرل نیازی نے اعلان کیا تھا کہ بھارتی فوج ان کی لاش سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوگی۔ جنرل یحییٰ نے سقوطِ ڈھاکا سے کچھ دن پہلے ہی فرمایا تھا کہ قوم پریشان نہ ہو، ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ مگر سقوطِ ڈھاکا سے معلوم ہوگیا کہ ملک کا دفاع انتہائی کمزور ہاتھوں میں تھا۔ جنرل نیازی کے بیان کا یہ حشر ہوا کہ بھارتی فوج ڈھاکا میں دندنا رہی تھی اور جنرل نیازی کی لاش کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا، بلکہ جنرل نیازی ایک کمرے میں بیٹھا بھارتی جنرل کو فحش لطیفے سنا رہا تھا۔ یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں۔ میجر صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں یہی لکھا ہے۔ پاکستانی جرنیلوں نے مشرقی پاکستان کے سیاسی بحران میں ملک کے دفاع کے لیے البدر اور الشمس کے نام سے دو تنظیمیں کھڑی کی تھیں۔ ان تنظیموں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان شامل تھے۔ ان نوجوانوں نے دفاعِ پاکستان کے لیے جان کی بازی لگادی مگر جب سقوطِ ڈھاکا ہوا تو ہمارے جرنیل خود تو اقوام متحدہ کے متعلقہ قوانین کے تحت ’’قیدی‘‘ بن کر محفوظ ہوگئے مگر انہوں نے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مکتی باہنی نے البدر اور الشمس کے ایک ایک رضا کار کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر شہید کیا۔ پاکستان سے محبت کی سزا ایک اور کمیونٹی کے حصے میں آئی۔ انہیں عرف ِعام میں ’’پھنسے ہوئے بہاری‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان تمام بہاریوں کو سقوط ڈھاکا کے فوراً بعد پاکستان بلا لیا جانا چاہیے تھا مگر یہ ابھی تک بنگلا دیش کے کیمپوں میں پڑے سڑ رہے ہیں اور پاکستان کا حکمران طبقہ اب ان کا ذِکر تک نہیں کرتا۔ ’’پھنسے ہوئے بہاری‘‘ کہلانے والے ان مظلوم پاکستانیوں کو بنگلادیش نے کئی بار اپنا شہری بنانے کی پیشکش کی مگر انہوں نے انکار کردیا۔
ہمیں ملک کی ایک ممتاز سیاسی شخصیت نے بارہ چودہ سال پہلے بتایا کہ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں کشمیریوں کو پیغام دیا گیا کہ اگر وہ اپنی تحریک اور تحرّک کو ایک خاص سطح پر لے آئیں تو پاکستان مداخلت کے ذریعے ان کی مدد کرے گا۔ مگر جب کشمیری اپنی تحریک کو مطلوبہ سطح پر لے آئے اور انہوں نے پاکستان سے مداخلت کی درخواست کی تو ان سے کہا گیا کہ کشمیر کے لیے پاکستان کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو محصور ہوئے 90 سے زیادہ دن ہوگئے ہیں مگر پاکستان کا حکمران طبقہ بھارت پرصرف بیانات کے گولے داغ رہا ہے اور اس نے بھارت کی مزاحمت کا سارا بوجھ کشمیریوں پر ڈال دیا ہے۔ جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ ہم کشمیر اور اہلِ کشمیر کے لیے آخری گولی اور آخری سانس تک لڑیں گے۔ مگر ہمارا حکمران طبقہ پہلی گولی چلائے گا تو آخری گولی کی نوبت آئے گی۔ وہ کشمیر کے لیے پہلا سانس لیتا دکھائی دے گا تو قوم کو یقین ہوگا کہ یہ کشمیر کے لیے آخری سانس تک لڑنے والا ہے۔ بھارت کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ ہم نے جس طرح پہلے پاکستان توڑا تھا ہم ایک بار پھر پاکستان توڑیں گے، اور ہم اس کے جواب میں بھارتی رہنمائوں کے بیانات کو گیدڑ بھبھکی کہہ کر خوش ہورہے ہیں۔ حالاں کہ اس صورتِ حال میں شیر کون ہے اور گیدڑ کون، یہ بات راز نہیں۔
پاکستان کے حکمران طبقے ہی نے افغانستان میں طالبان کو لانچ کیا تھا۔ جب طالبان لانچ ہوگئے تو ہمارے حکمران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاس پہنچے اور کہا کہ طالبان کو تسلیم کرلیجیے، طالبان ’’ہمارے بچے‘‘ ہیں۔ مگر نائن الیون کے بعد ہمارے حکمران طبقے نے ’’اپنے بچوں‘‘ کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے ہاتھ فروخت کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملاضعیف کو بھی پکڑ کر امریکا کے حوالے کردیا۔ حالاں کہ سفیر کو تمام متعلقہ بین الاقوامی قوانین کے تحت گرفتاری سے استثناحاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ایک شناسا نائن الیون کے بعد ڈاکٹروں کے ایک وفد کے ساتھ افغانستان سے واپس آئے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ جس چیک پوسٹ سے گزرے ہر چیک پوسٹ پر کسی نہ کسی نے اُن سے پوچھا کہ کسی عرب مجاہد یا کسی طالب کا پتا معلوم ہے؟ شریف خاندان خود کو ’’پاکستانیت‘‘ کی علامت کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ ایک زمانے میں میاں نواز شریف نے بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے یہ نعرہ تخلیق کروایا تھا:
’’تم نے ڈھاکا دیا، ہم نے کابل لیا‘‘
پاکستان کے حکمران طبقے نے جتنا کابل لیا تھا وہ سب کو معلوم ہے، مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ شریف خاندان کی ’’پاکستانیت‘‘ کا عالم یہ ہے کہ شریف خاندان پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے منصوبے پر عمل کررہا تھا اور میاں شہباز شریف جو اسٹیبلشمنٹ کے ’’پسندیدہ‘‘ ہیں، بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ دونوں پنجابوں کو ایک کرنے کے حوالے سے مذاکرات فرما رہے تھے۔ یہ ’’خبر‘‘ ہماری تخلیق نہیں بلکہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ کے باب ’’اکھنڈ بھارت‘‘ میں اس کا ذِکر کیا ہے۔ اس ’’انکشاف‘‘ سے صرف شریف خاندان کی ’’پاکستانیت‘‘ ہی نہیں بلکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی ’’پاکستانیت‘‘ بھی عیاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ شریفوں پر کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں اور اس سلسلے میں شہادتیں ’’کھود کھود‘‘ کر نکالی جارہی ہیں، مگر ان کی پاکستان دشمنی سے متعلق ایک ٹھوس خبر آئی ایس آئی کے ایک سربراہ نے مہیا کر رکھی ہے مگر یہ خبر نہ فوج کو نظر آرہی ہے، نہ کسی خفیہ ادارے کو نظر آرہی ہے، نہ سپریم کورٹ اس کا ازخود نوٹس لے رہی ہے، نہ کوئی سیاست دان اس موضوع پر بات کررہا ہے، نہ کوئی ’’اینکر‘‘ اس موضوع پر کوئی پروگرام کرتا ہے۔
عمران خان کبھی کہا کرتے تھے کہ وہ سرمائے اور Electables کی سیاست نہیں کریں گے، وہ کہا کرتے تھے کہ وہ خودکشی کرلیں گے مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، مگر انہوں نے سرمائے کی سیاست بھی خوب کی اور Electableکی سیاست کو بھی خوب چار چاند لگائے۔ رہا آئی ایم ایف، تو وہ اُس کے پاس اِس طرح گئے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ، رضا باقر اور شبر زیدی کی صورت میں آئی ایم ایف کو پاکستان کے اداروں میں لا بٹھایا۔
مولانا فضل الرحمن ’’اسلامی سیاست‘‘ کی علامت کہلاتے ہیں مگر اُن کی سیاست اتنی اسلامی ہے کہ انہیں عمران خان تو بیرونی طاقتوں کے آلہ کار اور قادیانیوں کے سرپرست نظر آتے ہیں مگر میاں نواز شریف ختمِ نبوت پر کھلے عام حملہ کریں، قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کو نوازیں اور ملک کی ایک جامعہ کا ایک شعبہ ڈاکٹر سلام سے منسوب کردیں، یا شہباز شریف گریٹر پنجاب کے لیے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ سے بات چیت کریں تو اچانک مولانا کی نظر کام کرنا بند کردیتی ہے اور عمران خان کے لیے چار آنکھیں رکھنے والے مولانا کی کوئی آنکھ شریفوں کے سلسلے میں کام کرتی نظر نہیں آتی۔