انصار الاسلام پر پابندی ، عدالت نے وزرات داخلہ کو طلب کر لیا

688

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ان کی نظر میں تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا نوٹیفیکیشن ہی غیر موثر ہے۔

عدالت نے وزارت داخلہ کے حکام کو 29 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ حکام عدالت کو اس بات پر مطمئن کریں کہ کیسے جمیعت علمائے اسلام کو سنے بغیر وزارت داخلہ نے پابندی لگائی۔

انہوں نے انصار الاسلام پر پابندی کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران مزید کہاکہ ’وزارت داخلہ کیسے کسی کو سنے بغیر کالعدم قرار دے سکتی ہے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب تنظیم کا علیحدہ سے کوئی وجود ہی نہیں تو اس پر کیسے پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ انصار الاسلام کوئی پرائیویٹ ملیشیا نہیں ہے لیکن یہ تنظیم جمیعت علمائے اسلام کا حصہ ہے۔

اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہ پرائیویٹ ملیشیا تو نہیں لیکن ان کے ہاتھ میں ڈنڈے تو ہیں۔’

 عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ڈنڈے تو جھنڈوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔

 کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام سیاسی جماعت کے طور پر الیکش کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے اور انصار الاسلام کے افراد جمعت علمائے اسلام کے رکن ہیں۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس تنظیم کے لوگ سیاسی جماعت کے رکن ہیں تو پھر حکومت کی طرف سے اس تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا نوٹیفکیشن ہی غیر موثر ہے۔