بریسٹ کینسر جان لیوا مگر قابل علاج مرض ہے

790

 

رپورٹ:غزالہ عزیز

بریسٹ کینسر (چھاتی کا سرطان) اس جان لیوا مرض کی سب سے عام قسم ہے مگر اس کے حوالے سے متعدد غلط فہمیاں دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں۔
اگر ایشیا کی بات کی جائے تو پاکستان میں سب سے زیادہ چھاتی کے کینسر کی شرح پائی جاتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں دیر تک حیض جاری رہنا اور زیادہ عمر میں پہلے بچے کی پیدائش وغیر ہ شامل ہیں یعنی بنیادی طور پر جسم میں ایسٹروجن ہارمون کی زیادتی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔
لیکن جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں وہ بریسٹ کینسر سے زیادہ محفوظ رہتی ہیں۔
ہر سال 90 ہزار کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ 40 ہزار خواتین اس مہلک بیماری کے ہاتھوں جان کھو بیٹھتی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ہر 8 ویں خاتون کو اس بیماری سے خطرہ لاحق ہے۔
ویسے تو کینسر کی اس قسم کے حوالے سے لوگوں میں شعور موجود ہے مگر معلومات حیران کن حد تک کم ہے اور اسی وجہ سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔
یہاں وہ باتیں جانیے جو اس کینسر کے حوالے سے ہر ایک کو معلوم ہونی چاہیے۔
یہ کسی خاص عمر میں لاحق نہیں ہوتا
چھاتی کا سرطان کسی خاص عمر میں شکار نہیں کرتا بلکہ یہ ہر عمر کی خواتین میں سامنے آسکا ہے، چاہے عمر 20 سال ہو یا 50 سال، بریسٹ کینسر کا امکان لگ بھگ برابر ہی ہوتا ہے۔ تو اس کینسر کی کسی بھی قسم کی علامات جیسے گلٹی یا کچھ غیرمعمولی محسوس ہو، تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ آغاز میں اس پر قابو پالینا بہت آسان ہوتا ہے۔
ہر ایک کو مختلف تجربہ ہوتا ہے
بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوجانا کسی کے لیے بھی خوفناک خواب ثابت ہوسکتا ہے، مگر آپ کے ارگرد افراد اس مرض کے بارے میں متعدد اقسام کی کہانیاں بیان کرتے ہیں، مگر ان پر یقین کرنا کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ بھی جان لیں کہ تمام مریضوں کے علاج کا اختتام بھی ایک جیسا نہیں ہوتا۔
کیمو تھراپی سے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں
یہ تو نارمل ہے کہ کیموتھراپی کے عمل سے گزرتے ہوئے مریض فکرمند ہو مگر یہ اتنا خراب نہیں، یقیناً کچھ مریضوں کو شدید سائیڈ ایفیکٹس کا سامنا ہوتا ہے مگر ایسے بھی ہیں جن کو ایسا تجربہ نہیں ہوتا، اس کا انحصار درحقیقت مریض کی حالت اور کینسر کے لیے علاج کے کورس پر ہوتا ہے۔
دوسری بار بھی معائنہ کرائیں
بریسٹ کینسر کی تشخیص کے بعد دوسری بار بھی معائنہ کرالینا چاہیے، کیونکہ اکثر اوقات ڈاکٹر پہلی بار کچھ علامات کو پکڑ نہیں پاتے، جس سے حالت زیادہ خراب ہوسکتی ہے، تو اگر آپ کو لگے کچھ ٹھیک نہیں تو کسی اور ڈاکٹر سے مشورہ کریں، یہاں تک کہ ادویات کے لیے بھی رائے لے لینا ٹھیک ہوسکتا ہے۔
علاج ہمت ختم کردینے والا تجربہ ہوسکتا ہے
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بریسٹ کینسر کا علاج ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا دینے والا ہوتا ہے، ہر مہنے 2 سے 3 بار کیموتھراپی کے لیے ہسپتال جانا پڑسکتا ہے، بالوں سے محرومی کا سامنا ہوسکتا ہے جو دل توڑ دینے والا ہوتا ہے، علاج چھوڑ دینے کی خواہش بہت زیادہ مضبوط ہوسکتی ہے، مگر اس وقت خود کو مضبوط رکھنا اور علاج جاری رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
بریسٹ کینسر قابل علاج ہے
درحقیقت بریسٹ کینسر کے مریضوں کے بچنے کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے، لگ بھگ 95 فیصد مریض مناسب علاج کے بعد صحت یاب ہوجاتے ہیں، تاہم اس کے لیے کینسر کی جلد تشخیص ضروری ہے، اگر تیسرے یا چوتھے مرحلے پر مرض دریافت ہو تو صحت یابی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
مرد بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں
یہ مرض صرف خواتین تک محدود نہیں، مرد بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں، دنیا بھر میں بریسٹ کینسر کے ایک فیصد کیسز مردوں میں سامنے آتے ہیں، تو مردوں کو بھی چھاتی پر کسی قسم کی عجیب گلٹی نظر آئے تو ڈاکٹر سے ضرور رجوع کریں۔
بریسٹ سرجری دنیا کا اختتام نہیں،اگر سرجری کے نتیجے میں چھاتی کو نکال دیا گیا ہے تو دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں، آپ پھر بھی خوبصورت اور بہادر ہوں گے جو اس مرض سے بچ کر نکل سکتے ہیں۔