جاوید چودھری کا اسلام‘ ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ پر حملہ

711

 جاوید چودھری نے یہ بھی فرمایا ہے کہ رسول اکرمؐ جیسا نہ کوئی تھا نہ ہوسکتا ہے۔ چناں چہ رسول اکرمؐ کی جیسی ریاست بھلا کون قائم کرسکتا ہے۔ رسول اکرمؐ کی ریاست ہی کیا آپؐ کی تو نماز بھی بے مثال تھی۔ بھلا جیسی نماز رسول اکرمؐ نے پڑھی کون پڑھ سکتا ہے؟ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان نماز پڑھنا چھوڑ دیں؟ نہیں‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نماز میں رسول اکرمؐ کے خشوع و خضوع کا اتباع کرنے کی کوشش کریں۔ ریاست مدینہ کے نمونے کی پیروی کا مطلب رسول اکرمؐ سے مسابقت تھوڑئی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم رسول اکرمؐ کے اوصاف کو اپنے لیے نمونہ عمل بنائیں۔ رسول اکرمؐ کے جہاد کو اپنے لیے ایک مثال بنائیں۔ آپؐ کے صبر اور قناعت کو اپنے لیے رہنما خیال کریں۔ ہماری نیت جتنی اچھی، اخلاص جتنا عمدہ اور اہلیت جتنی بھرپور ہوگی ہم رسول اکرمؐ کی ریاست مدینہ کے ماڈل سے اپنی ریاست کو اتنا ہی ہم آہنگ کرسکیں گے۔ مگر جاوید چودھری کی آرزو یہ ہے کہ مسلمان ریاست مدینہ کو بھول جائیں اور نواز شریفوں، آصف زرداریوں، عمران خانوں، الطاف حسینوں اور جنرل ایوبوں، جنرل عیسیٰ خانوں اور جنرل مشرفوں پر قناعت کریں۔ اس لیے کہ کوئی مسلمان اپنی ریاست کو رسول اکرمؐ کی ریاست مدینہ کی طرح تھوڑئی بنا سکتا ہے۔ یہ مسلمانوں کو ریاست مدینہ سے مایوس کرنے کی ایک صورت ہے۔ کتنی عجیب بات ہے جاوید چودھری جیسے لوگ ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں روپے کی طرف مراجعت کو ممکن نہیں پسندیدہ بھی سمجھتے ہیں مگر وہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دینے کے لیے تیار نہیں کہ تم زندگی کے ہر معاملے میں رسولؐ کے اسوئہ حسنہ سے ایک ہزار کلو میٹر دور کھڑے ہو تو ذرا آگے بڑھو اور اس فاصلے کو 900 کلو میٹر اور پھر اس سے بھی کم کرنے کی کوشش کرو۔ کیا صحابہ کرامؓ، اور ہمارے ہزاروں صوفیا اور اکابر علما نے خود کو اسوئہ رسولؐ سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کرنے کے لیے مسلسل کوششیں نہیں کیں؟ اور کیا یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں؟۔
کہنے والوں نے کہا ہے کہ مکھی پورے خوبصورت جسم کو چھوڑ کر صرف اس مقام پر بیٹھتی ہے جہاں زخم ہوتا ہے۔ جاوید چودھری کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ان کی فطرت بھی مکھی کی طرح ہے۔ چناں چہ انہیں خلافت راشدہ بے مثال تجربہ تو نظر نہیں آتا انہیں نظر آتا ہے تو یہ کہ تین خلیفہ شہید ہوگئے۔ صحابہؓ کے درمیان جنگیں ہوگئیں اور خلافت ملوکیت میں ڈھل گئی۔ پوری انسانی تاریخ ہمارے سامنے ہے اس تاریخ میں انبیا کی تاریخ کے سوا کوئی تاریخ ایسی نہیں جو خلافت راشدہ کی تاریخ کا مقابلہ کرسکے۔ چناں چہ کہنے والوں نے کہا ہے کہ اگر اسلام کو دوسرا عمر فاروقؓ مل جاتا تو پوری دنیا مسلمان ہوجاتی۔ کیا کسی اور امت کی تاریخ میں دوسرا فاروق اعظمؓ موجود ہے۔ فاروق اعظمؓ کا حال یہ تھا کہ وہ مسجد میں خطبہ دینے کے لیے اس مقام پر بیٹھتے تھے جہاں ابوبکرؓ خطبہ دینے کے لیے اپنے پائوں رکھتے تھے۔ کیا دنیا کی تاریخ میں کوئی حکمران ایسا ہوا ہے جس نے یکے بعد دیگرے دنیا کی سپر پاورز کو شکست دی ہو؟ سیدنا ابوبکرؓ کی عظمت کے بیان کے لیے رسول اکرمؐ کا یہ فرمان کافی ہے کہ عمرؓ کی ساری نیکیاں ابوبکرؓ کی ایک نیکی کے برابر ہیں۔ سیدنا عثمانؓ کی عظمت یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے اپنی دو بیٹیاں ان کے عقد میں دیں۔ سیدنا عثمانؓ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو جمع کیا۔ سیدنا علیؓ کی عظمت یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ علیؓ مجھ سے ہیں اور میں علیؓ سے ہوں۔ علم کے حوالے سے رسول اکرمؐ نے چاروں خلفائے راشدین کو ایک جگہ جمع فرما دیا۔ آپؐ کا ارشاد ہے میں شہر علم ہوں۔ ابوبکرؓ اس کی بنیاد ہیں۔ عمرؓ اس کی دیواریں ہیں۔ عثمانؓ اس کی چھت ہیں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔ کیا انسانی تاریخ میں کسی نبی نے اپنے اصحاب کے لیے یہ کہا؟ مگر جاوید چودھری کو نظر آتا ہے تو یہ کہ تین
خلیفہ شہید ہوئے۔ ارے صاحب کچھ معاملات ’’تقدیری امور‘‘ کے دائرے میں آتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ رسول اکرمؓ کی عمر مبارک 73 سال کردیتے تو ان کے خزانے میں کیا کمی آجاتی؟ مگر تقدیری امر یہی تھا کہ آپؐ کی عمر مبارک 63 سال ہوگی۔ سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کی شہادت کا تقدیری امر ہونا رسول اکرمؐ سے ثابت ہے۔ ایک بار رسول اکرمؐ صدیق اکبرؓ، عمر فاروقؓ اور عثمان غنیؓ کے ساتھ احد پہاڑ پر تھے کہ پہاڑ لرزنے لگا۔ رسول اکرمؐ نے پہاڑ پر زور سے پائوں مارا اور فرمایا ٹھیر جا، اس وقت تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہدا موجود ہیں۔ اس کے معنی یہ کہ رسول اکرمؐ کو بتادیا گیا تھا کہ عمرؓ، فاروقؓ اور عثمان غنیؓ شہید کردیے جائیں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خلافت کے ملوکیت میں ڈھل جانے کا عمل بھی ایک تقدیری امر نظر آتا ہے۔ اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ کسی تجربے کی روح کو ایک حد سے زیادہ خالص رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسا نہ ہوتا تو ایک لاکھ 24 ہزار انبیا مبعوث نہ ہوئے ہوتے۔ اس سلسلے میں دوسری امتوں کی تاریخ پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے۔ عیسائیت سے تو اپنی آسمانی کتاب ہی نہ سنبھالی جاسکی۔ ایک عیسائی روایت کے مطابق انجیل سریانی میں نازل ہوئی تھی مگر سریانی میں انجیل کا کوئی نسخہ کہیں موجود نہیں۔ سیدنا عیسیٰؑ کی مخبری ان کے ایک حواری نے کی۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق سیدنا عیسیٰؑ مصلوب کردیے گئے۔ سیدنا موسیٰؑ الواح لینے گئے تو ان کی عدم موجودگی میں ان کی قوم بچھڑے کو پوجنے لگی۔ دوسرے موقع پر سیدنا موسیٰؑ کی قوم نے سیدنا موسیٰؑ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ یہودیوں نے انبیا کو قتل کیا اور اپنی کتاب میں تحریفات کیں اور یہودیت کو ایک نسلی مذہب بنا کر رکھ دیا۔ مگر جاوید چودھری ہمیشہ یہودیوں اور عیسائیوں کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔ وہ نواز شریف جیسے لوگوں کی تعریف فرماتے ہیں مگر انہیں اسلام ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ میں بڑے نقائص نظر آتے ہیں۔