عدالتیں انصاف فراہم کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟

451

سانحہ ساہیوال میں کیا بات اتنی ہی سادہ ہے کہ گواہان نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کردیا۔ لہٰذا عدالت کے پاس کوئی راستہ نہ رہا اور ملزمان کو ’’شک کا فائدہ‘‘ دے کر بری کردیا۔ ملزمان کو پہچاننے اور اچانک پہچان ختم ہونے کی وجہ کیا تھی؟ یہ واضح بھی ہے اور مبہم بھی۔ اتنی مبہم کہ عدالت کے جج مجبور ہوگئے ملزمان کی رہائی کے لیے… اور اتنی واضح کہ اس وقت وزیراعظم قطر سے یقین دلاتے ہیں کہ میں واپسی پر پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا اور اُس کی اصلاح کا آغاز کروں گا۔ یہ وعدہ جو علی الاعلان ٹیوٹر پر کیا گیا تھا وعدئہ محبوب بن کر رہ گیا۔ ویسے اب تک پوری قوم کو اندازہ ہوگیا ہے کہ عمران خان کے نزدیک وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اُن سے مکرنے کے لیے ان کے پاس یوٹرن کا ٹول ہمیشہ دستیاب ہے۔ دس سالہ عمیر اور سات اور پانچ سال کی منبیہ اور ہادیہ کو اس وقت نہ جانے کس کس کے روبرو یہ کہانی بار بار سنانی پڑی تھی جب میڈیا انہیں شوٹ کررہا تھا۔ میڈیا بچوں سے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے ماں، باپ اور بہن کے قتل کی داستان سنوا سنوا کر اپنے پوائنٹ اور ریٹنگ اسکور کررہا تھا۔ یہ نو ماہ پہلے کی بات ہے۔ جب ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر ہر طرف دیکھی گئی، جس میں ایک گاڑی کو سیکورٹی کے اہلکار گھیرے ہوئے تھے، بعد میں وضاحت کی گئی کہ ان پر چلائی جانے والی گولیاں غلط فہمی میں چلائی گئیں۔
حیرت ہے کہ چار معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیاں ماری گئیں، بچوں کے کپڑے اپنے والدین کے خون سے رنگین تھے، گم سم اور خوف سے سہمے بچے اپنے والدین کی چھلنی لاشیں دیکھ رہے تھے۔ سارے ملک میں اس پر غم و غصے کی ایک لہر دوڑی ہوئی تھی تو اس وقت وزیراعظم عمران خان قطر سے عوام کو دلاسا دیتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ میں واپس آکر ذمے داروں کو عبرت ناک سزا دوں گا۔ یہ واپسی نو ماہ میں ہوتی ہے لیکن عبرت ناک سزا ایسی عبرت ناک نکلی کہ عدالت نے اس مقدمے کے نامزد تمام ملزمان کو باعزت بری کرنے کا اعلان کردیا۔ سارے ملک میں اب بحث کا موضوع یہ ہے کہ کیا پاکستان میں نظام انصاف اتنا کمزور ہے کہ وہ کسی سانحے میں ناحق مارے جانے والے لوگوں کو انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہے؟۔ معاملہ یہ ہے کہ عدالت واقعی اپنے سامنے موجود ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ دیتی ہے لیکن نظام کی کمزوری دراصل مفادات کی اہمیت میں مدغم ہے۔ یہ مفادات کبھی اتنے اہم ہوتے ہیں کہ سارے شواہد، ثبوت اور گواہ گم سم ہو کر چپ سادھ لیتے ہیں اور ویڈیوز کی موجودگی بھی کسی کھاتے میں گنی نہیں جاتی۔ کیوں کہ گواہان کو تحفظ میسر نہیں کہ وہ آزادانہ گواہی دے سکیں۔ یہ کیسی عدالت ہے؟ یہ کیسی جے آئی ٹی تھی جو ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں کا سراغ نہ لگاسکی، تمام تر ثبوتوں اور گواہان کی موجودگی کے باوجود قتل کا کمزور استغاثہ بنایا گیا۔ چناں چہ عدالت نے باآسانی تمام ملزمان یعنی سی ٹی ڈی اور اہلکاروں کو بری کردیا اور انصاف کے لیے متاثرین نے خود ہی کیس سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’’گواہان نے ملزمان کے بری ہوجانے پر کوئی اعتراض نہ ہونے کا بیان دیا ہے‘‘۔ نو ماہ پہلے اس واقعے کے وقت سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیان دیے گئے، پہلے دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ بتایا گیا، پھر بچوں کی بازیابی کی کارروائی کہا گیا، بعد میں جب قتل کی ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئی تو مرنے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد اور دوسرے کو اس کا سہولت کار قرار دیا گیا۔ معاملہ تو اُسی وقت انتہائی مشکوک ہوگیا تھا جب سی ٹی ڈی نے بیانات بدلے تھے۔
مقتول خلیل کے بھائی نے 2 کروڑ حکومت سے لینے کا اعتراف کیا۔ بہرحال یہ سارا معاملہ کچھ بہتر انداز سے بھی نمٹایا جاسکتا تھا جب غلطی کا اعتراف کیا جاتا اور اس اعتراف کے بعد دیت کی رقم کی ادائیگی کردی جاتی۔ یہ ایک سیدھا سادا کیس تھا جس میں سب کچھ واضح تھا۔ لیکن اس کے باوجود انصاف نہیں ہوسکا۔ سوچیے کہ کیس ذرا پیچیدہ ہو تو انصاف کیسے ملے؟ یہی وجہ ہے کہ شاہ رخ جتوئی، مصطفی کانجو، خروٹ آباد، بارہ مئی، بلدیہ فیکٹری اور دیگر قتل کے کیسوں میں انصاف نہیں ملے؟ عمران خان کے تمام تر دعوئوں کے باوجود نئے پاکستان میں وہی کچھ ہورہا ہے جو پرانے پاکستان میں ہوتا رہا، پاکستان میں بااثر افراد کے لیے انصاف کا پیمانہ کچھ ہے اور عوام کے لیے کچھ اور… صاحب ثروت اور صاحب اختیار جھوٹے مقدمات کے ذریعے بے گناہ کو جیل میں ڈلواتے ہیں اور گناہ گار کو مکھن سے بال کی طرح نکال لے جاتے ہیں۔ مقدمات کے فیصلوں میں چار پانچ سال کا عرصہ لگنا تو معمولی بات ہے، بعض دفعہ جیلوں میں سڑنے والے بے گناہوں کو بیس بیس سال بعد یہ کہہ کر رہا کردیا جاتا ہے کہ ’’یہ بے گناہ ہے‘‘۔ گواہوں، آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ کے باوجود مجرم کو عدالت سے بری کردیاجاتا ہے۔ انصاف کی عدم دستیابی تباہی ہے اور تباہی سے بچنا ہے تو بے لاگ اور بروقت انصاف فراہم کرنا پڑے گا ورنہ رسولؐ برحق نے کہا تھا کہ تم سے پہلے لوگ تباہ ہی اس لیے ہوئے تھے کہ وہ غریبوں کو قانونی سزاا دیتے اور امیروں کو معاف کردیتے تھے۔