جاوید چودھری کا اسلام‘ ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ پر حملہ

1774

میاں نواز شریف کے پرستار، معروف کالم نگار اور اینکر پرسن جاوید چودھری نے اپنے حالیہ کالم میں اسلام، ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ پر بھرپور حملہ کیا ہے۔ یہ حملہ اتنا شرمناک ہے کہ ہم کئی روز تک سوچتے رہے کہ اس کا جواب دیں یا نہ دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جاوید چودھری کے حملے کا ذکر بھی تکلیف دینے والا ہے۔ لیکن جاوید چودھری کے حملے کو نظر انداز کرنا بھی اسلام، ریاست مدینہ کے تصور اور خلافت راشدہ کے ساتھ ظلم ہے۔ اب دل تھام کر پڑھیے کہ جاوید چودھری نے کیا گل کھلائے ہیں۔ لکھتے ہیں۔
’’وزیراعظم عمران خان کے سامنے چند سوال رکھنا چاہتا ہوں، میں اسلام اور سیرت کے طالب علم کی حیثیت سے صرف جاننے کے لیے ان سے پوچھنا چاہتا ہوں‘ آپ فرمائیے کیا رسول اکرمؐ نے واقعی کسی ریاست کی بنیاد رکھی تھی؟ میں نے جتنی تاریخ پڑھی اللہ تعالیٰ نے اس میں صرف دو انبیا کو ریاست عنایت کی تھی‘ حضرت دائودؑ اور حضرت سلیمانؑ یہ دونوں نبی بھی تھے اور حکمران بھی‘ میرے ناقص علم کے مطابق باقی تمام انبیا صرف نبی تھے اور لوگ ان کی امت،

دو۔۔ کیا ریاست مدینہ صرف مدینہ کی ریاست تھی یا پھر یہ اسلامی ریاست تھی اور کیا یہ پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے شروع نہیں ہوئی تھی اور کیا یہ حضرت علیؓ پر جا کر ختم نہیں ہوگئی تھی اور کیا اس کے بعد ملوکیت کا آغاز نہیں ہوگیا تھا اور کیا ملوکیت کا دور آج تک جاری اور ساری نہیں؟

تین۔۔ آپ جب ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو کیا آپ نبی اکرمؐ کی 10 سالہ مدنی زندگی کی بات کرتے ہیں یا پھر آپ چار خلفاء راشدین کے زمانے کو یاد کرتے ہیں‘ آپ کی نظر میں کون سے ادوار ریاست مدینہ ہیں؟

چار۔۔ کیا آپ پاکستان کو نبی اکرمؐ کے دس سالہ مدنی دور کے مطابق ریاست بنانا چاہتے ہیں یا پھر آپ چار خلفاء راشد کے ماڈل کو اپنانا چاہتے ہیں

پانچ۔۔ آپ اگر ریاست کو نبی اکرمؐ کے دس سالہ مدنی دور کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے؟ کیوں؟ کیوں کہ ہمارا ایمان ہے وہ دور صرف اور صرف رسول اللہؐ کا دور تھا‘ دنیا میں وہ دور آپؐ سے پہلے آیا اور نہ آپؐ کے بعد آئے گا، ہم حقیر خاکی لوگوں میں کس میں جرأت ہے کہ رسول اللہؐ کا مدینہ بنا سکے، اللہ نے یہ اعزاز صرف اور صرف رسول اللہؐ کو بخشا تھا اور یہ نعمت ان کی ظاہری آنکھیں بند ہوتے ہی سو گئی تھی اور آپ اگر خلفاء راشدین کے دور کو ریاست مدینہ سمجھ رہے ہیں تو کیا آپ نے ان ادوار کا پوری طرح مطالعہ کیا؟ کیا آپ جانتے ہیں ان ادوار میں وہ اختلافات پیدا ہوئے تھے جن کے اثرات 14 سو سال سے جاری ہیں اور شاید اگلے 14 سو سال بھی جاری رہیں‘ اس دور میں حضرت عمر فاروقؓ مسجد نبوی میں شہید کردیے گئے تھے، حضرت عثمان غنیؓ کو مدینہ منورہ میں ان کے گھر میں شہید کردیا گیا تھا اور آپؓ کا جسد انور تین دن قرآن مجید پر پڑا رہا تھا‘ اس دور میں حضرت عائشہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان جنگ جمل اور حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان جنگ صفین ہوئی تھی اور حضرت علیؓ اپنا دارالحکومت مدینہ سے کوفہ منتقل کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس دور میں چار خلفاء راشدین میں سے تین خلفا خلافت کے دوران شہید کردیے گئے تھے اور آخر میں کربلا کا ایسا خوف ناک واقعہ پیش آگیا تھا جس پر آج بھی تاریخ ماتم کرتی ہے۔ چناں چہ آپ کے لیے یہ فیصلہ بہت ضروری ہے کہ آپ اپنی قیادت میں قوم کو کس ریاست مدینہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں‘ کیوں کہ مسلمان 14 سو سال بعد بھی خلفاء راشدین کی خلافت پر متفق نہیں ہیں‘ امت میں آج بھی درجنوں فرقے موجود ہیں ان فرقوں کی شروعات ان ادوار میں ہوئی تھی اور چھٹا اور آخری سوال‘ کیا خلفاء راشدین کے بعد اسلامی تاریخ میں آج تک کوئی اسلامی ریاست قائم ہوسکی اور اگر ہوئی تو کیا پوری امت اس پر متفق تھی؟۔

(روزنامہ ایکسپریس۔ 13 اکتوبر 2019ء)

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جاوید چودھری کو میاں نواز شریف کی ’’سیاست کی جھگی‘‘ شاندار لگتی ہے مگر اسلام، ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ کے ’’تاج محل‘‘ میں انہیں عیب نظر آتے ہیں۔ بلکہ انہیں تو اس بات پر اصرار ہے کہ رسول اکرمؐ کو ریاست دی ہی نہیں گئی اور ریاست مدینہ کا تصور محض ایک مفروضہ ہے۔ انہیں خلافت راشدہ میں کچھ نظر آیا تو تین خلفا کی شہادت اور جنگ جمل اور جنگ صفین۔ غور کیا جائے تو جاوید چودھری اسلام، ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ کو اسلام کے دشمن کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔ اسلام ایک بے مثال مذہب ہے۔ قرآن ایک لاجواب کتاب ہے۔ رسول اکرمؐ سردار الانبیا ہیں مگر مستشرقین کو اسلام میں بھی معاذ اللہ عیب نظر آتا ہے۔ انہیں قرآن گھڑی ہوئی کتاب نظر آتی ہے اور رسول اکرمؐ کی بے مثال سیرت پر بھی انہوں نے تواتر کے ساتھ حملے کیے ہیں۔ جاوید چودھری کا طرزِ عمل مستشرقین کے طرزِ عمل سے زیادہ مختلف نہیں۔ اس طرزِ عمل کو انہوں نے اپنے کالم کے آغاز میں علمی، عقلی اور سماجی جائزہ قرار دیا ہے۔ مستشرقین بھی اسلام، قرآن مجید اور سیرت طیبہؐ پر اپنی ناپاک تنقید کو علمی، عقلی اور سماجی جائزہ ہی قرار دیتے ہیں۔
آئیے اب اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ جاوید چودھری نے عالمانہ لیکن اصلاً جاہلانہ یقین کے ساتھ فرمایا ہے کہ ریاست صرف دو انبیا یعنی سیدنا دائودؑ اور سیدنا سلمانؑ کو عطا کی گئی ایسا نہیں ہے۔ سیدنا یوسفؑ کو بھی ریاست یا اقتدار عطا کیا گیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
’’اس طرح ہم نے یوسفؑ کو اس سرزمین میں اقتدار بخشا وہ اس کے جس حصے کو چاہتا اپنی جگہ بنا سکتا تھا‘‘۔
(سورئہ یوسف: 56-12)
رسول اکرمؐ اور اقتدار کے درمیان تعلق اس لیے ناگزیر تھا کہ رسول اکرمؐ پر دین مکمل کردیا گیا تھا۔ دین کی تکمیل اور جامعیت میں یہ تصور موجود ہے کہ رسول اکرمؐ کو ریاست عطا کی گئی ہے تا کہ وہ دین کو ایک ضابطہ حیات کے طور پر برت اور نافذ کرسکیں اور رسول اکرمؐ نے عملاً ریاست مدینہ میں یہی کیا۔ رسول اکرمؐ نے قرآن و سنت کو ریاست کے قانون کے طور پر برتا۔ آپؐ نے انہی دو چیزوں کی روشنی میں نماز قائم کی۔ زکوٰۃ کا نظام وضع کیا، سود کو ختم کیا، عدالت قائم کی، جہاد کیا، وراثت تقسیم کی، شادی اور خاندان کا ادارہ قائم کیا۔ یہ تمام چیزیں دین کو ایک مکمل نظام حیات کے طور پر قائم کرنے کے لیے کی گئیں، یہ تمام امور اس چیز کا ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ ریاست مدینہ ریاست کی ہر تعریف کے اعتبار سے ایک ریاست تھی۔ لیکن اس سلسلے میں اصل تصدیق تو قرآن و حدیث کی تصدیق ہے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت سے پہلے رسول اکرمؐ سے یہ دعا منگوائی۔ ارشاد ربانی ہے۔
’’اور دعا کرو کہ پروردگار! مجھ کو تو جہاں بھی لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘۔
(بنی اسرائیل: 80-17)
مولانا مودودی نے اس آیت مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ آیت پاک کہہ رہی ہے کہ یا تو مجھے خود اقتدار عطا فرما یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنادے تا کہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے بگاڑ کو درست کرسکوں۔ فواحش اور معاصی کے سیلاب کو روک سکوں اور تیرے قانون عدل کو جاری کرسکوں۔ مولانا مودودی کے بقول حسن بصریؒ، قتادہ، ابن جریر اور ابن کثیر جیسے مفسرین نے بھی اس آیت مبارکہ کی یہی تعبیر بیان فرمائی ہے۔ مولانا مودودیؒ کے بقول اس کی تائید اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا۔
’’اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدباب کردیتا ہے جن کا سدباب قرآن سے نہیں ہوتا‘‘۔
تفسیر ابن کثیر جلد 3، صفحہ 59)
اس تناظر میں دیکھا جائے تو جاوید چودھری کا یہ کہنا کہ رسول اکرمؐ کو ریاست یا حکومت نہیں دی گئی نری جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ بلاشبہ خلافت راشدہ اسی ریاست مدینہ کا تسلسل تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ رسول اکرمؐ کے عہد میں ریاست کی باگ ڈور ایک نبی کے ہاتھ میں تھی اور خلافت راشدہ میں ریاست کی باگ ڈور چار خلفائے راشدین کے ہاتھ میں تھی۔ ہم اپنے علمی زوال کی وجہ سے یہ سامنے کی بات بھی بھول گئے ہیں کہ راشد کا ایک مطلب صراط مستقیم پر چلنے والا بھی ہے اور ہدایت یافتہ یعنی The Guided One بھی۔ رسول اکرمؐ کے بعد خلافت راشدہ مسلمانوں کی روحانی، اخلاقی، علمی اور انتظامی ترقی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

جاوید چودھری نے یہ بھی فرمایا ہے کہ رسول اکرمؐ جیسا نہ کوئی تھا نہ ہوسکتا ہے۔ چناں چہ رسول اکرمؐ کی جیسی ریاست بھلا کون قائم کرسکتا ہے۔ رسول اکرمؐ کی ریاست ہی کیا آپؐ کی تو نماز بھی بے مثال تھی۔ بھلا جیسی نماز رسول اکرمؐ نے پڑھی کون پڑھ سکتا ہے؟ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان نماز پڑھنا چھوڑ دیں؟ نہیں‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نماز میں رسول اکرمؐ کے خشوع و خضوع کا اتباع کرنے کی کوشش کریں۔

ریاست مدینہ کے نمونے کی پیروی کا مطلب رسول اکرمؐ سے مسابقت تھوڑاہی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم رسول اکرمؐ کے کو اپنے لیے نمونہ عمل بنائیں۔ رسول اکرمؐ کے جہاد کو اپنے لیے ایک مثال بنائیں۔ آپؐ کے صبر اور قناعت کو اپنے لیے رہنما خیال کریں۔ ہماری نیت جتنی اچھی، اخلاص جتنا عمدہ اور اہلیت جتنی بھرپور ہوگی ہم رسول اکرمؐ کی ریاست مدینہ کے ماڈل سے اپنی ریاست کو اتنا ہی ہم آہنگ کرسکیں گے۔ مگر جاوید چودھری کی آرزو یہ ہے کہ مسلمان ریاست مدینہ کو بھول جائیں اور نواز شریفوں، آصف زرداریوں، عمران خانوں، الطاف حسینوں اور جنرل ایوبوں، جنرل عیسیٰ خانوں اور جنرل مشرفوں پر قناعت کریں۔ اس لیے کہ کوئی مسلمان اپنی ریاست کو رسول اکرمؐ کی ریاست مدینہ کی طرح تھوڑاہی بنا سکتا ہے۔ یہ مسلمانوں کو ریاست مدینہ سے مایوس کرنے کی ایک صورت ہے۔

کتنی عجیب بات ہے جاوید چودھری جیسے لوگ ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں روپے کی طرف مراجعت کو ممکن نہیں پسندیدہ بھی سمجھتے ہیں مگر وہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دینے کے لیے تیار نہیں کہ تم زندگی کے ہر معاملے میں رسولؐ کے اسوئہ حسنہ سے ایک ہزار کلو میٹر دور کھڑے ہو تو ذرا آگے بڑھو اور اس فاصلے کو 900 کلو میٹر اور پھر اس سے بھی کم کرنے کی کوشش کرو۔ کیا صحابہ کرامؓ، اور ہمارے ہزاروں صوفیا اور اکابر علما نے خود کو اسوئہ رسولؐ سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کرنے کے لیے مسلسل کوششیں نہیں کیں؟ اور کیا یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں؟۔

کہنے والوں نے کہا ہے کہ مکھی پورے خوبصورت جسم کو چھوڑ کر صرف اس مقام پر بیٹھتی ہے جہاں زخم ہوتا ہے۔ جاوید چودھری کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ان کی فطرت بھی مکھی کی طرح ہے۔ چناں چہ انہیں خلافت راشدہ بے مثال تجربہ تو نظر نہیں آتا انہیں نظر آتا ہے تو یہ کہ تین خلیفہ شہید ہوگئے۔ صحابہؓ کے درمیان جنگیں ہوگئیں اور خلافت ملوکیت میں ڈھل گئی

۔ پوری انسانی تاریخ ہمارے سامنے ہے اس تاریخ میں انبیا کی تاریخ کے سوا کوئی تاریخ ایسی نہیں جو خلافت راشدہ کی تاریخ کا مقابلہ کرسکے۔ چناں چہ کہنے والوں نے کہا ہے کہ اگر اسلام کو دوسرا عمر فاروقؓ مل جاتا تو پوری دنیا مسلمان ہوجاتی۔ کیا کسی اور امت کی تاریخ میں دوسرا فاروق اعظمؓ موجود ہے۔ فاروق اعظمؓ کا حال یہ تھا کہ وہ مسجد میں خطبہ دینے کے لیے اس مقام پر بیٹھتے تھے جہاں ابوبکرؓ خطبہ دینے کے لیے اپنے پائوں رکھتے تھے۔ کیا دنیا کی تاریخ میں کوئی حکمران ایسا ہوا ہے جس نے یکے بعد دیگرے دنیا کی سپر پاورز کو شکست دی ہو؟

سیدنا ابوبکرؓ کی عظمت کے بیان کے لیے رسول اکرمؐ کا یہ فرمان کافی ہے کہ عمرؓ کی ساری نیکیاں ابوبکرؓ کی ایک نیکی کے برابر ہیں۔

سیدنا عثمانؓ کی عظمت یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے اپنی دو بیٹیاں ان کے عقد میں دیں۔ سیدنا عثمانؓ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو جمع کیا۔

سیدنا علیؓ کی عظمت یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ علیؓ مجھ سے ہیں اور میں علیؓ سے ہوں۔

علم کے حوالے سے رسول اکرمؐ نے چاروں خلفائے راشدین کو ایک جگہ جمع فرما دیا۔ آپؐ کا ارشاد ہے میں شہر علم ہوں۔ ابوبکرؓ اس کی بنیاد ہیں۔ عمرؓ اس کی دیواریں ہیں۔ عثمانؓ اس کی چھت ہیں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔ کیا انسانی تاریخ میں کسی نبی نے اپنے اصحاب کے لیے یہ کہا؟ مگر جاوید چودھری کو نظر آتا ہے تو یہ کہ تین خلیفہ شہید ہوئے۔ ارے صاحب کچھ معاملات ’’تقدیری امور‘‘ کے دائرے میں آتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ رسول اکرمؓ کی عمر مبارک 73 سال کردیتے تو ان کے خزانے میں کیا کمی آجاتی؟ مگر تقدیری امر یہی تھا کہ آپؐ کی عمر مبارک 63 سال ہوگی۔ سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کی شہادت کا تقدیری امر ہونا رسول اکرمؐ سے ثابت ہے۔

ایک بار رسول اکرمؐ صدیق اکبرؓ، عمر فاروقؓ اور عثمان غنیؓ کے ساتھ احد پہاڑ پر تھے کہ پہاڑ لرزنے لگا۔ رسول اکرمؐ نے پہاڑ پر زور سے پائوں مارا اور فرمایا ٹھیر جا، اس وقت تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہدا موجود ہیں۔ اس کے معنی یہ کہ رسول اکرمؐ کو بتادیا گیا تھا کہ عمرؓ، فاروقؓ اور عثمان غنیؓ شہید کردیے جائیں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خلافت کے ملوکیت میں ڈھل جانے کا عمل بھی ایک تقدیری امر نظر آتا ہے۔ اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ کسی تجربے کی روح کو ایک حد سے زیادہ خالص رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسا نہ ہوتا تو ایک لاکھ 24 ہزار انبیا مبعوث نہ ہوئے ہوتے۔

اس سلسلے میں دوسری امتوں کی تاریخ پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے۔ عیسائیت سے تو اپنی آسمانی کتاب ہی نہ سنبھالی جاسکی۔ ایک عیسائی روایت کے مطابق انجیل سریانی میں نازل ہوئی تھی مگر سریانی میں انجیل کا کوئی نسخہ کہیں موجود نہیں۔ سیدنا عیسیٰؑ کی مخبری ان کے ایک حواری نے کی۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق سیدنا عیسیٰؑ مصلوب کردیے گئے۔

سیدنا موسیٰؑ الواح لینے گئے تو ان کی عدم موجودگی میں ان کی قوم بچھڑے کو پوجنے لگی۔ دوسرے موقع پر سیدنا موسیٰؑ کی قوم نے سیدنا موسیٰؑ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ یہودیوں نے انبیا کو قتل کیا اور اپنی کتاب میں تحریفات کیں اور یہودیت کو ایک نسلی مذہب بنا کر رکھ دیا۔ مگر جاوید چودھری ہمیشہ یہودیوں اور عیسائیوں کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔ وہ نواز شریف جیسے لوگوں کی تعریف فرماتے ہیں مگر انہیں اسلام ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ میں بڑے نقائص نظر آتے ہیں۔