آزادی مارچ، سیاسی و جمہوری طاقتیں کیا کریں؟

645

سید محمد اشتیاق
جب ہوش سنبھالا، تو پاپا مرحوم مشرقی پاکستان میں بحیثیت آڈٹ آفیسر مقیم تھے۔ اپریل 1969 میں دادا ابا کا انتقال ہوا، تو عمر محض پانچ سال تھی۔ لیکن پاپا کا رات گئے، گھر آنا خوب یاد ہے۔ ستر کے انتخابات میں پلاسٹک کے ترازو میں کنکر بھر کر وزن برابر کرنا محبوب مشغلہ تھا۔ ان دنوں کراچی میں جماعت اسلامی کا توتی بولتا تھا اور جماعت اسلامی کا انتخابی نشان بھی ترازو تھا۔ جماعت اسلامی کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ غبارے بیچنے والے پلاسٹک کے ننھے ترازو بھی بیچا کرتے تھے۔ انتخابات ہوگئے اور مشرقی پاکستان میں حالات بھی خراب ہونے شروع ہوگئے لیکن ناظم آباد کی گلیوں میں لڑکوں بالوں اور بچوں میں دو نعرے بہت مقبول تھے۔ ’’بنگالی بابو آیا، مرغی چرا کر لایا، مرغی نے مارا پنجا، بنگالی بابو گنجا‘‘۔ اور دوسرا ’’گلی گلی میں شور ہے، بنگالی بابو چور ہے‘‘۔ یہ تھی، بنگالیوں سے نفرت کی انتہا۔ چچا مرحوم پبلک سروس کمیشن میں ملازم تھے اور جو ٹیم مغربی پاکستان سے مقابلے کے امتحان میں کامیاب بنگالی امیدواروں کا انٹرویو کرنے مشرقی پاکستان جاتی تھی اس کا حصہ ہوتے تھے۔ پاپا اور چچا مرحوم اس زمانے کے وہ حالات بتایا کرتے تھے، جس سے مغربی پاکستان کے باشندے لا علم تھے اور ہیں۔
پاپا مرحوم کے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر یاسین رضوی مرحوم جرمنی میں پریس اتاشی تھے اور بعد میں ’کیہان انٹرنیشنل‘ کے انٹرنیشنل ڈیسک کے انچارج انقلاب ایران تک رہے۔ بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں ۔ یاسین چچا جب بھی کراچی آتے، ہمارے گھر ضرور تشریف لاتے۔ معروف صحافی اور تجزیہ نگار جناب نذیر لغاری بڑے بھائی کے دوست ہیں کئی برس تک روز شام کو ہمارے گھر کی چھت پر محفل سجاتے اور مطالعے کے ساتھ باتیں بھی چلتیں۔ خیر میں تو بات چیت میں کیا حصہ لیتا بس سن لیا کرتا تھا۔ اس لیے سیاسی باتیں گھٹی میں پڑی ہوئی ہیں اور وطن عزیز کی سیاسی تاریخ سے تھوڑی بہت واقفیت بھی ہے۔
پاکستان قومی اتحاد نے 1977 کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی۔ اس تحریک کے نتیجے میں لگنے والے مارشل لا کے والد مرحوم سخت مخالف تھے۔ بس وہیں سے مارشل لا سے نفرت کا آغاز ہوا۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں ہمارے حلقے سے محمود اعظم فاروقی مرحوم، شاہ بلیغ الدین مرحوم سے شکست کھا گئے اور انتخابات سے قبل ہی ہر ایک کی زبان پر تھا کہ شاہ بلیغ الدین جیت جائیں گے۔ شاہ بلیغ الدین نے عوام میں پزیرائی ٹی وی کے ذریعے حاصل کی اور بعد میں مقتدر حلقوں کے نور نظر بن گئے اور انتخابی کامیابی ان کا مقدر۔ بے نظیر بھٹو کی 1986 میں پاکستان آمد ہوئی، تو سیاست میں دوبارہ دل چسپی کا آغاز ہوا۔ 1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے شہید بے نظیر بھٹو کو بطور وزیر اعظم تو قبول کر لیا لیکن حدود و قیود متعین کر دیں۔ وہ دن اور آج کا دن وطن عزیز میں ہر وزیر اعظم کو ان ہی حدود و قیود کا پابند رہنا ہوتا ہے۔ جو حدود و قیود سے باہر نکلنے کی سعی کرے اس وزیر اعظم کے خلاف مقتدر حلقے ایسی فضا بنا دیتے ہیں کہ بے چارہ اقتدار ہی سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوا، جب وہ پہلی بار وزیر اعظم بنیں اور ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ محترم میاں نواز شریف نے دیا۔ 12 اکتوبر 1999 تک یہی کھیل جاری رہا۔ جنرل پرویز مشرف نے جب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو برطرف کیا اور اس کے نتیجے میں تحریک چلی اور لال مسجد آپریشن ہوا، تو نہ جانے کیوں مجھے دونوں معاملات میں جنرل پرویز مشرف کا موقف درست لگا۔ بہرحال 2008 میں پیپلز پارٹی پھر بر سر اقتدار تھی۔ لیکن میثاق جمہوریت کے بعد بھی میاں نواز شریف چیف جسٹس بحالی تحریک کا حصہ بنے اور پچھتائے۔ ایسا ہی میمو گیٹ اسکینڈل میں ہوا۔ اقتدار کے حصول کے لیے اس زمانے میں شریف برادران نے جمہوریت پسند رویہ نہیں اپنایا۔ شکر ہے، علامہ طاہر القادری کے دھرنے پر مسلم لیگ (ن) غیر جانب دار رہی لیکن یہ غیر جانب داری مہنگی پڑی چونکہ حکومت سنبھالنے کے سال بھر بعد ہی علامہ طاہر القادری نے اپنے سیاسی کزن کے ساتھ دھرنا دے دیا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد منتخب وزیر اعظم کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے لیے مقتدر حلقوں نے آئینی شقوں باسٹھ، تریسٹھ اور اس کی ذیلی شقوں کا سہارا لیا اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دلوا کر کامیاب تجربہ کیا۔ ان آئینی شقوں کی مزید ترویج کے لیے علامہ طاہر القادری نے مقتدر حلقوں کے اشاروں پر اولین دھرنا دیا تھا۔ پاناما کیس میں میاں نواز شریف کو ان ہی شقوں کے تحت نااہل کیا گیا۔ چونکہ مقتدر حلقوں کے پاس منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں تحریک انصاف کے لیے کھلا سیاسی میدان چھوڑا تو مقتدر حلقوں کے لیے کام آسان ہوا اور انہوں نے تحریک انصاف کو سیاسی میدان میں دوڑنے کے لیے گدھے گھوڑے فراہم کر دیے۔
یوں عمران خان کا وزیر اعظم بننے کا بائیس سالہ خواب پورا ہوا۔ لیکن خواب پورے ہونے کے بعد چکنا چور بھی ہو جاتے ہیں۔ جس راستے سے تحریک انصاف نے اقتدار حاصل کیا، ایسے چور دروازوں سے کئی سیاست دان اور شخصیتیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچیں۔ لیکن پھر کہاں غائب ہو گئیں، تاریخ سے واقف حضرات اس سے خوب واقف ہیں۔ میاں نواز شریف جو یقینا 1996 تک اعجاز الحق کے پہلو میں کھڑے ہو کر آمروں کے گن گایا کرتے تھے۔ میاں نواز شریف نے 12 اکتوبر 1999 اور سہ بارہ غیر فطری طور پر اقتدار سے علیحدگی کے بعد، جو جمہوری و سیاسی موقف اور رویہ اپنایا ہوا ہے اگر وہ سیاسی و جمہوری موقف اور رویہ سیاست دان ہمیشہ اپناتے تو شاید وطن عزیز کبھی سیاسی و جمہوری عدم استحکام سے دوچار نہ ہوتا۔ وطن عزیز کو ایک اور دھرنے کا سامنا ہے۔ تجربہ و مشاہدہ ہے کہ ہر دھرنے، لانگ مارچ اور تحریک کے پیچھے وہ قوت ہوتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام جس کے لیے فائدہ مند ہے۔ یا دھرنے، لانگ مارچ یا تحریک کو ہائی جیک کرنا، جس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن ایک زیرک اور منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ مولانا کے آزادی مارچ کو حزب اختلاف کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ رہبر کمیٹی اور حکومتی مذاکراتی ٹیم بھی مذاکرات میں مصروف ہے۔ آزادی مارچ ہوتا ہے یا نہیں۔ مارچ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا اور یہ بھی وقت بتائے گا کہ اس مارچ کی پشت پر کون سی قوت تھی۔ لیکن عوام اور تمام جمہوری قوتوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جمہوریت ہی میں ملک کی بقا مضمر ہے۔ میاں نواز شریف کے موجودہ سیاسی و جمہوری موقف میں وزن ہے۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں اور جمہوری قوتیں میاں نواز شریف کے موقف کی سیاسی وابستگی سے بالا تر ہوکر جمہوری استحکام کی خاطر آزادی مارچ میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کی حمایت کرتی ہیں، تو یہ وطن عزیز کے لیے نیک شگون ہوگا۔
نوٹ: ’’راقم نہ تو سیاسی تجزیہ نگار ہے اور نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ۔ جو کچھ بھی تحریر کیا ہے وہ بطور وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے عرض کیا ہے‘‘۔