بھٹو سے زرداری تک

301

محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ڈاکٹر صفدر عباسی پارٹی معاملات سے الگ کر دیے گئے‘ تاہم میاں رضا ربانی کے ساتھ ان کی دوستی قائم رہی‘ یہ تعلق آج بھی قائم ہے تاہم اس میں اب پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی‘ پارٹی کے ایک کارکن ابن رضوی کھل کھلا کر ان کے ساتھ کھڑے رہے‘ پارلیمنٹ ہائوس کے کیفے ٹیریا میں ایک کونے میں لگی ہوئی میز پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ڈاکٹر صفدر عباسی بھی میز پر لگی ہوئی محفل میں شریک ہوگئے‘ ان سے پیپلزپارٹی کے مستقبل پر کھل کر گفتگو ہوئی‘ ان کا ایک ہی جملہ تھا کہ بلاول کو اگر سیاست کرنی ہے تو پھر اسے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی راہ اپنانا ہوگی ورنہ پارٹی ختم ہوجائے گی۔ ڈاکٹر صفدر سے ہم نے پوچھا کہ پارٹی میں کتنے لوگ ہیں جو اس خیال کے ہامی ہیں‘ کہنے لگے بہت ہیں مگر خاموش ہیں ڈاکٹر صفدر عباسی سے یہ گفتگو دو ہزار آٹھ میں ہوئی تھی اور آج اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیا کہ لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کا کھمبا ہار گیا‘ کھمبا کیا ہارا بلکہ شہر ہی آزاد ہورہا ہے کیونکہ اب وہ ماضی نہیں رہا جب حبیب جالب کو یہ کہنا پڑا تھا
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو‘ ورنہ تھانے چلو
اپنے ہونٹوں کی خوشبو لٹانے چلو گیت گانے چلو
ورنہ تھانے چلو
منتظر ہیں تمہارے شکاری وہاں کیف کا ہے سماں
اپنے جلوئوں سے محفل سجانے چلو مسکرانے چلو
ورنہ تھانے چلو
اسی لاڑکانے میں اب پیپلز پارٹی ہار چکی ہے‘ پارٹی تو اس شہر میں اس روز ہی ہار گئی تھی جب مولانا جان محمد عباسی کو اغواء کیا گیا تھا‘ اغواء اس لیے کیا گیا تھا کہ بھٹو زندہ تھے‘ مگر آج اس شہر میں زرداری زندہ ہیں جو اب بھٹوز کے شہر کے والی وارث اور ان قبروں کے رکھوالے ہیں۔ آصف علی زرداری، فریال تالپور اور پھر بلاول زرداری اور اسی شہر میں بھٹو کے اصلی خاندانی وارث اب کہیں نظر نہیں آتے۔
لاڑکانہ کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی شکست آج کی قیادت کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے یہ شکست اصل میں بیڈ گورننس کی دہائی دے رہی ہے پی ایس 11 کے ضمنی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج میں پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل احمد سومرو کو اپنے ہی گڑھ میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور ان کے مقابلے میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے امیدوار معظم عباسی جیت گئے ہیں معظم عباسی کی یہ مسلسل دوسری فتح ہے اس سے پہلے انہوں نے نثار کھوڑو کے آبائی حلقے سے ان کی صاحبزادی کو شکست دی اور اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کے سیاسی مشیر کو شکست دی ہے اس حلقہ کا ریکارڈ ہے کہ یہاں 1970ء سے 1990ء تک پیپلز پارٹی ناقابلِ شکست رہی تھی۔ پھر 1993ء کے عام انتخابات میں جب نصرت بھٹو اپنے بیٹے میر مرتضیٰ کے لیے گھر گھر گئیں تو لوگوں نے میر مرتضیٰ کو پیپلز پارٹی کے امیدوار پر سبقت دلا کر سرخرو کیا تب مرتضیٰ بھٹو کے سامنے پیپلز پارٹی کے امیدوار منور عباسی تھے اور آج اسی کے بیٹے معظم عباسی نے پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل سومرو کو شکست دی ہے معظم عباسی کا خاندان بھی اچھی شہرت رکھتا ہے ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم یافتہ معظم عباسی کی دادی ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی قومی اسمبلی کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر رہی ہیں ڈاکٹر صفدر عباسی اور منور عباسی کا شمار ہمیشہ ہی محترمہ بینظیر بھٹو کے وفادار ساتھیوں میں ہوا، مگر محترمہ کی موت کے بعد وفاداری کا یہ الم ان کے ہاتھوں سے چھین لیا گیا۔ معظم عباسی کے سامنے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ہولڈر لاڑکانہ کا ہوتے ہوئے بھی ہار گیا پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل سومرو ممتاز علی بھٹو کی پارٹی میں تھے وہاں سے ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں آئے، کسی طرح بلاول ہاؤس تک پہنچے اور پھر ایک دن بلاول زرداری کے پولیٹیکل سیکرٹری بن گئے۔ کوئی نہیں بتاتا کہ جمیل سومرو جماعت میں کسی یونین کونسل، تحصیل، ضلع، ڈویژن یا صوبائی تنظیم کے عہدیدار کب رہے ہیں؟ 1985ء میں احمد علی سومرو کے ساتھ جمیل سومرو ممتاز بھٹو کی نئی پارٹی سندھی، بلوچ پشتون فرنٹ میں چلے گئے تھے۔ 1995ء میں جمیل سومرو پھر احمد علی سومرو کے ساتھ پیپلز پارٹی میں واپس آگئے۔
کراچی کے کچھ صحافتی حلقوں کی معرفت کے سبب انہیں بلاول ہاؤس تک رسائی ملی ان کی ڈیوٹی میں یہ شامل تھا کہ وہ بلاول ہاؤس میں تمام اخبارات کی کٹنگز کی ایک فائل بنائیں بعد میں جمیل سومرو سندھی میڈیا کے حوالے سے کوآرڈینیٹر بن گئے لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کی شکست کے کئی اسباب ہیں۔ سب سے بڑا سبب یہ کہ پی ایس 11 کے لیے پیپلز پارٹی نے مناسب امیدوار نامزد نہیں کیا پارٹی نے فیصلہ عجلت میں کیا ہے یا پھر مقامی سیاست میں اندرونی تنازعات کے باعث کسی امیدوار پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں کمزور گھوڑا میدان میں اتار دیا گیا اسی وجہ سے پیپلز پارٹی کا کھمبا گرگیا۔ پارٹی چیئرمین بلاول زرداری نے پورا وقت اس حلقے اور شہر کو دیا۔ جلسے، مہم، کارنر میٹنگز سب کچھ کیا لیکن نتیجہ صفر رہا، ذوالفقار علی بھٹو کا لاڑکانہ کو پیرس بنانے کا وعدہ تو 50 سال بعد بھی پورا نہیں ہوسکا، لیکن افسوس کہ یہ ایک ایسا عام شہر بھی نہ بن سکا جہاں انسان سکون سے زندگی گزار سکیں۔ ترقیاتی کام نہ ہونے کہ وجہ سے لاڑکانہ ڈویژن میں ایک نہیں کئی موہن جو دڑو بن چکے ہیں اور پیپلز پارٹی نے عوام کی جگہ ان سرداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کو دے دی ہے جن کی کوشش ہوتی ہے یہ عام لوگ ان کی غلامی کریں پیپلز پارٹی کے لیے یہ ضمنی انتخاب ایک ٹیسٹ کیس تھا اس ٹیسٹ کیس میں شکست جمیل سومرو کو نہیں بلکہ نانا اور ماں کے شہر سے ان کے وارث بلاول زردارہ کو ہوئی ہے۔