وہ ڈاکو تھے مگر تھے تو ’’سلطانہ‘‘

456

جو بھی پاکستان میں حکمران بنا اس نے دونوں ہاتھوں سے پاکستان کو یا تو لوٹا یا اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، ملک کو دو لخت کرنے سے لیکر ملک کی بہو بیٹیوں اور جوانوں تک کو چند سکوں کے عوض نیلام کیا گیا۔ کوئی کہے کہ اس سارے گھناؤنے اور شرمناک کھیل میں صرف وہی حکمران شامل رہے جن کو عرف عام میں ’’سویلین‘‘ کہا جاتا ہے تو یہ بات حقائق ہی نہیں عدل و انصاف کے بھی خلاف ہوگی اس لیے کہ آج پاکستان جس کربناک صورت حال کا سامنا کر رہا ہے، بربادی کے اس گندے تالاب میں مقتدرہ ہو، سویلین حکمران ہوں، مارشل لائی طاقتیں ہوں، بیورو کریسی ہو، ہمارے محکمے ہوں، پارلیمان ہو، قوم کے الیکٹڈ ارکانِ اسمبلی ہوں، سینیٹ ہو یا موجودہ مسلط کیے گئے حکمران، سب کے سب ہی ننگے ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ تخت حکمرانی پر ہر بیٹھنے والا اور اس کے حواری ہمیشہ سابقین کے کپڑے ضرور اتارتے رہے، ان میں اور ان کی پالیسیوں میں کیڑے نکالتے رہے، پاکستان ہی نہیں، دنیا کے ہر فورم پر انہیں رسوا کرتے اور اپنی ایمانداری و دیانتداری میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے لیکن جب جب بھی تخت شاہی سے ان کی رخصتی ہوئی وہ ملک کے خزانوں کو سابقین سے کہیں زیادہ لوٹ کر جانے والے بنے۔ اب تو عالم یہ ہو گیا ہے کہ یہ پہچان ہی ختم ہو کہ رہ گئی ہے کہ آیا چور اس ملک کے محافظ ہیں یا جن کو محافظ سمجھا جاتا ہے وہ چور اور ڈاکو ہیں۔
اب تک پاکستان میں جتنے بھی حکمران آئے وہ سب کے سب آنے سے پہلے مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور ملک میں بدامنی و ابتری کے خلاف علم بغاوت ہی بلند کرتے نظرآئے ہیں لیکن جب بھی انہیں حکمرانی ملی ہے تو نہ صرف انہوں نے مہنگائی، بے روزگاری اور ظلم و ستم کی دوزخ کے شعلوں کو اور بھی دہکایا ہے بلکہ اپنے ہی دور میں بڑھ جانے والی مہنگائی کا الزام بھی گزشتہ حکومتوں کے سر ڈال کر عوام کی زندگی کو اور بھی زیادہ عذاب میں مبتلا کرنے کا سبب بنے ہیں۔ ان سب وارداتوں، ظلم اور زیاتیوں سے بھی بڑھ کر قوم کے ساتھ جو مذاق ہوتا چلا آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ وہ تمام لکیر کے فقیر جو ان کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھیڑ چال چل رہے ہوتے ہیں وہ اپنی لائی ہوئی حکومت کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے ہیں اور ان کی ملک دشمن پالیسیوں کو عوام دوست ثابت کرنے میں رات دن مصرف عمل رہتے ہیں۔
موجودہ حکومت پچھلی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف سابقہ ساری سیاسی پارٹیوں سے کہیں زیادہ نقاد نظر آئی۔ مہنگائی، بے روزگاری، غیر ملکی قرضے، دوسروں کی جنگ میں شرکت، روپے کی قدر میں کمی، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ جیسے ہر معاملے کو جواز بنا کر یہ دعویٰ کرتی نظر آئی کہ نہ تو وہ قرضے لے گی، نہ ہی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرے گی، نہ ہی بد عنوانیوں میں ملوث افراد کو اپنی حکومت کا حصہ بنائی گی اور نہ ہی کسی کو پاکستان کی دولت لوٹنے دے گی بلکہ وہ عام استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں کمی لائے گی، ایک کروڑ نوکریوں کی گنجائش پیدا کرے گی، بے گھروں کے لیے 50 لاکھ گھر بنا کر دے گی، روپے کی قدر میں اضافہ اور ڈالر کی قدر میں کمی لائے گی، حکومتی اخراجات میں کمی اور بد عنوان عناصر کو نہ صرف گرفتار کرے گی بلکہ لوٹا ہوا پیسہ ملک کے خزانے میں واپس لائے گی، لیکن… ہوا کیا؟۔ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب حکومت کا دفاع کرنے والوں کے پاس کچھ بھی نہیں سوائے عمران خان کی وہ تقریر جو انہوں نے اقوام متحدہ میں کی تھی۔
شروع شروع میں جب ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اچانک ٹیکسوں میں اضافے کیا گیا تو حمایت کرنے والوں نے دو باتیں کیں۔ ایک یہ کہ سابقہ حکومت پاکستان کے خزانے میں کچھ چھوڑ کر ہی نہیں گئی اس لیے فوری طور پر ٹیکس لگانے پڑ رہے ہیں اور دوسرا عذر یہ پیش کیا کہ جب قرضے بھی نہیں لیے جائیں گے تو ٹیکس لگانا ایک مجبوری ہے جسے قوم کو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ پھر ہوا یوں کے کشکول پوری دنیا میں گھومنا شروع ہوگیا اور بھیک نہ مانگنے کا دعویٰ خاک میں مل گیا اور قرض دینے اور لینے والوں نے وہ کمال دکھایا کہ اس سے پہلے والے اپنی اپنی بغلیں جھانکنے پر مجبور ہو گئے۔ کھانے پینے کی عام اشیا سے لیکر ہر قیمتی و بے قیمت اشیا کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچانا شروع کر دیا یہاں تک کہ ڈالر، پٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس کو سستا کرنے کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سوال یہ ہے کہ جب ٹیکس بھی خوب لگائے گئے، مہنگائی کے جن کو بھی بے قابو کر دیا گیا، قرضوں پر قرضے بھی خوب حاصل کیے گئے اور کرپشن کا خاتمہ بھی کردیا گیا تو یہ کارخانے کیوں بند ہو رہے ہیں، لوگ بے روزگار کیوں ہوتے جارہے ہیں، بد حالی کیوں بڑھتی جارہی ہے، لوگوں میں ہر آنے والا دن بے کیفیت و بے چینی میں اضافہ کیوں کرتا جارہا ہے اور عوام حکمرانوں کے مرجانے کی دعائیں کیوں مانگنے لگے ہیں۔
ممکن ہے کہ راقم کچھ جانبداری سے بات کر رہا ہو لیکن دنیا کے معتمد ادارے موجودہ دور حکومت کے بارے میں کیا اظہار خیال کررہے ہیں اس کی ایک ہلکی سی جھلک جسارت میں شائع ہونے والی اس خبر میں ملاحظہ کریں۔ خبررساں ایجنسیوں اور مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ ’’آئندہ چند برس میں پاکستان کی معاشی حالت مزید خراب ہوسکتی ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے موجودہ معاشی عدم استحکام کی بنیادی وجہ بلند تجارتی خسارہ اور زرمبادلہ کے کم ذخائر ہیں۔ عمران خان کی حکومت افراط زر، عوامی قرضوں اورمالی خسارے میں کمی کے اہداف اگلے 2 برس میں بھی پورے نہیں کرسکے گی، مہنگائی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے اوررواں سال مہنگائی کی شرح 13 فی صد رہنے کا خدشہ ہے‘‘۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار رہے گی‘‘۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کرپشن میں بھی ملوث نہیں ہے، ہر قسم کی کرپشن کے آگے مضبوط بند باندھ دیے گئے ہیں، کرپٹ عناصر کو پکڑلیا گیا ہے، کھر بوں قرضہ حاصل کرلیا گیا ہے، حکومتی آمدنی میں اضافے کے لیے بے تحاشا ٹیکسز لگا دیے گئے ہیں، ٹیکس دہندگان کی تعداد میں لاکھوں افراد کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے، بنیادی اشیائے ضرورت کے علاوہ گیس، بجلی اور پٹرولیم کی مصنوعات پر بھی 60 فی صد اضافہ کردیا گیا ہے تو پھر عالمی بینک کی رپورٹ اتنی دہشتناک اور وحشتناک کیوں ہے؟۔
مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود بھی آنے والے دنوں میں پاکستان کی مشکلات میں کمی کا کوئی امکان دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا جا رہا ہے کہ ’’پاکستان میں ترقی کی شرح میں بہتری سیاسی اور سیکورٹی خطرات میں کمی سے منسلک ہے۔ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ 2001 کے بعد سے پہلی بارغربت کے خاتمے کے لیے پاکستان کی پیش رفت ’رک‘ جائے گی اور اس کی وجہ معاشی الجھاؤ ہے۔ بیرونی ادائیگیاں پاکستان کے لیے مسئلہ رہیں گی جبکہ معاشی سست روی اور مہنگائی کے باعث غربت میں کمی کا امکان نہیں ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ برآمدات میں اضافے سے متعلق فی الحال کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ 2019 کے دوران خراب مالی کارکردگی کی اہم وجہ محصولات کی وصولی میں کمی اور سود کی بلند شرح کی ادائیگی ہے‘‘۔
عالمی بینک کی ان رپورٹوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہنے میں کسی کو بھی کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے کہ یا تو عالمی بینک کی رپورٹ موجودہ حکومت دشمنی پر مبنی ہے یا پھر موجودہ حکومت کے دعوے غلط ہیں۔ دعوؤں کے مطابق نہ تو حکومت پاکستانی روپے کی قدر میں کوئی اضافہ کر سکی، نہ قرضوں کے بغیر حکومت چلانے پر عمل کر سکی، نہ عوام کی مشکلات میں کمی لا سکی، نہ امن و امان کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہ سکی، نہ روزگار کی مواقع فراہم کر سکی اور نہ ہی بے گھروں کو گھر دینے سے متعلق کوئی پیش رفت سامنے آسکی۔ اور یہی نہیں بلکہ مستقبل میں بھی اس بات کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا کہ موجودہ حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام کو مشکلات کی دلدل سے باہر نکالنے میں کامیابی حاصل کر سکے۔ ان ہی سارے حالات کو دیکھتے ہوئے عوام یہ بات کہنے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں کہ چوروں کو واپس لاؤ اس لیے کہ وہ چور یا ڈاکو ضرور رہے ہوں گے لیکن وہ ’’سلطانہ‘‘ ہی تھے، ہٹلر یا مسولینی نہیں۔