کیا مظاہروں کے بغیر مہنگائی کم نہیں ہوسکتی؟

246

معاشی پالیسیوں میں ناکامی پر دنیا میںجو کچھ ہو رہا ہے وہ قابل غور ہے ۔ جن ممالک میں عموماً مہنگائی اور حکومت کے فیصلوں کے خلاف احتجاج نہیں ہوتا تھا اب ان میں بھی یہی ہو رہا ہے ۔ لبنان جیسے ملک میں جہاں حکومت کے خلاف احتجاج نہیں ہواکرتا تھا وہاں تین روز سے مظاہرے ہورہے ہیں ۔ چار وزراء نے استعفیٰ بھی دے دیا ہے لیکن پورے ملک کی سڑکوں پر مظاہرین ہی نظر آ رہے ہیں ۔ یہی حال چلی کا بھی ہے وہاں بھی منگائی کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور حکومتی کارروائی کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں ۔ حکومتوں کے روایتی اقدامات کی طرح چلی میں صدر نے ٹرین کرایوں میں اضافہ واپس لے لیا ۔ لبنان میں حکومت نے مظاہروں کی شدت کی وجہ سے ایک رعایتی پیکیج جاری کر دیا اور قیمتوں میں کمی کا عندیہ بھی دے دیا ہے ۔ لیکن مظاہرے جاری ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمران کسی احتجاج کے بغیر یہ رعایتی پیکیج اور قیمتوں میں کمی کیوں نہیں کرتے ۔ پاکستانی حکمرانوں او ر عوام کے لیے بھی ان خبروںمیں سبق ہے ۔ عوام کو یہ معلوم ہونا چاہے کہ ان کا حق کیا ہے اور یہ تو اب اچھی طرح معلوم ہو چکا ہوگا کہ یہ حق کیسے وصول کیا جاتا ہے ۔ لیکن حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ غلط معاشی پالیسیوں اور غلط مشیروں کے مشوروں کا یہی نقصان ہوتا ہے ۔ پاکستان میں تو حالات بہت ہی خرب ہیں ۔ ڈیڑھ برس میں گیس و پیٹرول کی قیمتوں میںکئی مرتبہ اضافہ ہو چکا ہے ۔ ڈالر کو راکٹ لگ گیا ہے ۔ اشیائے خورو نوش مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہیں ۔لوگوں کی آمدنی میں اضافہ اس تناسب سے نہیں ہو رہا اور ہمارے حکمراں اور ان کے ہمنوا لوگوں کو ہر چند ماہ بعد یہ دلاسہ دیتے ہیں کہ حالات جلد سدھر جائیں گے ۔پاکستان ٹائیگر بن جائے گا یا خوشحال ہو جائے گا ۔ لیکن خوشحالی کسے کہتے ہیں پاکستانی عوام یہ بھول چکے ہیں ۔ کیا ہمارے حکمران بھی لبنان اور چلی جیسے مظاہروں کے منتظر ہیں۔