خود پرستی سے خدا پرستی تک

1118

صبیحہ اقبال
تناور نظریے فنا ہوں اور ذہنوں میں فضل نو کی آبیاری ہو تو انقلاب آتا ہے۔ انقلاب ایک واضح فرق کی طرف اشارہ کرتا ہے، ایسی تبدیلی جس میں قلبی کیفیات کی تبدیلی بھی مضمر ہو، اپنی روایتی اور خود ساختہ اقدار میں تبدیلی لائی جائے جو محض ظاہری تبدیلی نہ ہو بلکہ باطنی و ذہنی تبدیلی ہو جو عمل سے واضح ہورہی ہو، خود پرستی سے خدا پرستی کی طرف،، ہر نئے نظام کی ابتدا تبدیلی کے جھونکوں ہی سے ہوتی ہے اور تبدیلی اپنے اندر مثبت و منفی دونوں پہلو رکھتی ہے۔ مثبت تبدیلی انسان کو خدا پرست بنا کر دوسرے تمام غیر خدائوں سے نجات دلا دیتی ہے، ذہنی یکسوئی عطا کرتی ہے اور فرد، معاشرے دنیا میں انقلاب کی نوید بن جاتے ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑا انقلاب ہمیشہ اسلام نے برپا کیا۔ ذہنی، روحانی، تہذیبی تبدیلی پیدا کی اور دنیا کو شرک و بدعت کے فسق و فجور سے نکال کر توحید کی روح پھونکی۔ آج ہمارے لیے بھی معاشرے میں پھیلے ہوئے فسق و فجور کے کانٹوں کو چن کر ان کی جگہ توحید و رسالت کے گلوں کی آبیاری کا مرحلہ درپیش ہے جس کے لیے دوسروں کی تبدیلی سے قبل خود اپنی دل و دماغ، سوچ و فکر نظریات و فرمودات کی تطہیر بہت اہم ہے۔
یوں دیکھا جائے تو تبدیلی کا معاملہ یہ ہے کہ زمانہ ہر لمحہ تبدیل ہورہا ہے، قدرت مستقبل کو حال اور حال کو ماضی میں پرونے کا عمل مستقل جاری رکھے ہوئے ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر فرد تبدیلی کا خواہشمند نظر آتا ہے، بہتر سے بہترین کی طرف کوشاں یہ بات دوسری ہے کہ اس بہتر سے بہترین کی طرف کی تعبیر وہ کس چیز پر کرتا ہے؟ اپنے بہترین ارتقا کے لیے وہ کون سا راستہ چنتا ہے؟ لیکن دیکھا جائے تو ایک انسان کے لیے انقلاب کا نقطہ آغاز نفسِ امارہ سے نفسِ لوّامہ کی طرف مراجعت ہے جو نفسِ مطمئنہ پر جا کر سانس لے جہاں اس کے مادی وجود کا آخری سانس ہو۔ ’’تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ بڑے بڑے دعوئوں، جوشیلے اور بے باک نعروں، تحریروں، تقریروں اور خواہشات میں تبدیلی کی تکرار کے باوجود آخر تبدیلی کیوں نہیں آرہی؟۔
انسانوں کی اکثریت اپنے آپ کو ہر موڑ پر کامل گردانتی ہے اور ردّوبدل کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی۔ جب کہ اپنی کمزوری کا اعتراف یکسوئی کا باعث بنتا ہے اور تعمیر میں مددگار ہوتا ہے۔ شیخ سعدیؒ کا قول ہے کہ ’’اگر کوئی شخص کسی معاملے میں کوئی نظریہ قائم کرلے تو اس کے ذہن میں پھر کوئی دوسرا خیال نہیں آتا۔ ایسی صورت میں وہ دوسرے کے موقف اور سچائی کو بالائے طاق رکھ کر اپنے نقطہ نظر ہی پر قائم رہتا ہے‘‘۔ تبدیلی یا انقلاب کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ جمود کی لذت سے آشنائی ہے اور تبدیلی کی فرصت سے نارسائی ہے جو تبدیلی کی جانب عملاً گامزن نہیں ہونے دیتی۔ تبدیلی وقت مانگتی ہے اور ہم شارٹ کٹ کے متلاشی، تبدیلی کے نئے پن سے ہم اسی طرح خوف زدہ ہیں جس طرح نئے پڑوس، نئی بہو، نئے ماحول وغیرہ سے خوف ہمارا فطری عمل ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جمود ہمارے معمولات کا حصہ ہوتا ہے، لہٰذا وہ فطری محسوس ہوتا ہے۔ بچپن میں آٹھ سے نو بجے کے درمیان سوجانا معمولات کا حصہ ہوا کرتا تھا، لہٰذا وہی وقت نیند کے لیے فطری محسوس ہوتا تھا اور آج کل بارہ بجے سے قبل سونے کا چوں کہ رواج نہیں اس لیے گھبرا کر جلد سوجانے والے کی خیریت پوچھتے ہیں۔ طرزِ کہن ورثے میں ملا ہوا عنصر ہے اور انسان عموماً اپنے ورثے سے جذباتی وابستگی رکھتا ہے یہ وابستی اسے انقلاب کی طرف مائل نہیں ہونے دیتی۔ پھر یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ہر نبی کی دعوتِ انقلاب کے مقابلے میں اپنے آبائو اجداد کے دین کی طرف رغبت رہی ہے جو اسلام کو چیلنج کرتی رہی ہے۔ انقلاب ذات کی راہ میں کی ایک بڑی وجہ عادات بھی ہیں عادات چوں کہ اپنے آپ کو دھراتی ہیں اس لیے غیر محسوس طور پر انسان ان کا اثیر ہوتا ہے اور انہیں ترک کرنے پر خلا کا احساس ہوتا ہے۔ مگر ایسا بالکل نہیں ہے کہ تبدیلی سرے سے ناممکن ہو اگر عادت کو ترک کرنے کے لیے اس سے بڑی کوئی چیز، کوئی بڑی قوتِ محرکہ ہو تو عادت ترک کرنا ممکن ہی نہیں بلکہ آسان ہوجاتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت حصول کی تمنا وہ بڑا محرک ہیں جو انسان کو اپنی جان تک دے دینے کے لیے تیار کردیتی ہے۔جب کہ بعض اوقات ذہنی تبدیلی کے لیے کوئی چھوٹا سا معصومانہ جملہ بھی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک کنسرٹ میں گانے کے دوران جب محفل عروج پر تھی کہ مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی، گائیک نغمہ سرائی موقوف کی اور سازندوں کی انگلیاں بھی جہاں کی تہاں رک گئیں۔ وقعتا ایک چھوٹی بچی آگے بڑھی اور گائیک سے رکنے کی وجہ پوچھی ’’بیٹا اذان ہورہی ہے‘‘ گائیک نے جواب دیا ’’تو انکل آپ کو کون سا جنت میں جانا ہے‘‘؟ بچی نے ترت جواب دیا، بچی کی معصومیت نے (محفل کو) گائیک کو اندر تک لرزا کر رکھ دیا۔ زندگی کی کایا پلٹ گئی، تاریخ اسلام ایسی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے جہاں کسی معمولی واقعہ نے زندگی کے رنگ ڈھنگ بدل ڈالے، عقیدے اور نظریات تبدیل ہوگئے لیکن ہدایت کا وہ لمحہ اگر زندگی کی بند مٹھی سے انجانے میں ریت کی طرح سرک گیا اور نفسِ لوّامہ پکارتا رہ گیا تو کبھی تبدیلی نصیب نہیں ہوتی۔ اس لیے حکم ہے ’’نیکی کو اختیار کرنے میں جلدی کرو‘‘۔
آج معاشرتی بگاڑ اور حالتِ زار پر سب پریشان ضرور ہیں مگر یوں لگتا ہے کہ تبدیلی کے لیے کسی معجزے کے منتظر ہیں، کیا ضروری ہے کہ معجزے ہی رونما ہوں؟۔ اگر سمجھیں تو قرآن کی صورت میں معجزہ تو رونما ہو ہی چکا ہے جس نے معاشرے کو حقیقی معنوں میں تبدیل کیا (اور اس انقلاب کی رونمائی آج بھی گاہے گاہے ہوتی ہی رہتی ہے) مشرکوں کو مواحد، دہشت گردوں کو مجاہد، لٹیروں کو محافظ، رانیوں کو پاکباز، جاہلوں کو حکیم اور ابو الحکیم کو ابوجہل بنا ڈالا، ایسی تبدیلی ایسا انقلاب جس کے اثرات تاقیامت رونما ہوں گے۔ کیا قرآن واقعی معجزہ نہیں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں صرف کہنے اور سننے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ صرف کہنا اور سننا عمل کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں محنت سے گریز اور حق سے زیادہ وصول کرنے کی عادت نے ناکارہ بنادیا ہے۔ اپنی سستی اور کاہلی چھوڑ کر خلوصِ نیت کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہونا اورپر گزرتے لمحے کو عمل کے سچے موتیوں کی مالا میں پرو کر اپنے خزانے میں جمع کرالینا ہی حقیقی کامیابی اور تبدیلی کی دلیل ہے۔ لیکن معاملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا نبی کریمؐ نے فرمایا تھا ’’آخر وقت میں قرآن کی قرأت و تجوید میں مبالغہ آرائی سے کام لیں گے لیکن علم و عرفان اور ہدایت مطلوب نہ ہوگی‘‘۔ (مشکوٰۃ) حقیقت بھی یہی ہے کہ قرآن جسے معجزے سے علم و عرفان ہمارا مقصود نہیں رہا اور نہ ہدایت مقصود رہی، ورنہ جتنا قرآن پڑھا اور سنا جارہا ہے اس لحاظ سے تو ہمارے دل پرندوں کی مانند ہوجاتے۔ اور ہمارے عمل کی صورت گری یوں ہوتی کہ گفتگو میں صداقت، نیکی میں سبقت، مخلوقِ خدا سے محبت، نفس کی حفاظت، بیمار کی عیادت، نیک لوگوں کی صحبت، لباس میں سادگی، خیالات میں پاکیزگی، طبیعت میں عاجزی و انکساری، مہمان نوازی، مظلوم کی مدد اور غریب کی دلجوئی، گھر والوں سے خوشخلقی، والدین و بزرگوں کا احترام، وعدے کی وفا، سلام میں پہل اور انتقام میں تاخیر ہوتی تو معاشرے کی جو صورت ہے کہ کہیں اقتصادی کمزوری تو کہیں حصولِ انصاف کے لیے پریشانی، کسی کے لیے یوٹیلیٹی بلز پرابلم ہیں تو کوئی رشوت خوروں کے ہاتھوں خوار ہے، کسی کا مسئلہ اگر کاروبار کی مندی کا ہے تو کوئی ملازمت کے حصول میں ناکام، کہیں مالی اعتبار سے ازدواجی بندھن باندھنے کی فکر لاحق ہے تو کوئی اس گتھی کو سلجھانے میں مصروف کہ نباہ کیسے کرے؟۔ محض ختم نبوت کا عقیدہ ہی امت کے لیے موت و زندگی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اسلام نے دین ہونے کے ناتے تمام شعبہ ہائے زندگی میں عقائد اور نظریات کے ساتھ ساتھ احکام اعمال بھی دیے جن سے روگردانی بھی زندگی و موت کا معاملہ سمجھا جانا چاہیے۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ’’مومن کے لیے ہر وہ دن عید ہے جس دن وہ ربّ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے‘‘۔ انسان کی اپنی ذات کے ساتھ ساتھ علما بھی اس معاملے میں جوابدہ ہیں کہ وہ انبیا کے وارث ہوتے ہیں لوگ مثبت طرزِ عمل کے لیے انہی کی طرف دیکھتے ہیں وہ اپنے قول و فعل سے امت کو دین حق پر عمل کے لیے اس طرح رغبت دلائیں کہ جنت و جہنم انہیں اپنے اعمال کے نتیجے میں سامنے نظر آئیں نہ کہ ان کا ذہن اس طرح سوچتا ہو کہ ’’جیسے چاہو جیو‘‘ میرا جسم میری مرضی‘‘ کرلو جو کرنا ہے وغیرہ۔ امت مسلمہ اس وقت نہ شعلہ نہ چنگاری بلکہ راکھ کا ڈھیر بنی ہوئی ہے جسے عمل سے عاری ایمان اور جدوجہد سے خالی ایقان کبھی بھی انقلاب یا تبدیلی کی راہ پر نہیں ڈال سکتے بلکہ تقدیر امم کے لیے شمشیر و سناں کے دستوں پر بھی ہاتھ رکھنا ہوگا اور خودپرستی سے خدا پرستی کی طرف بھی پلٹنا ہوگا۔