آزادی مارچ ‘ دھرنوں کی فنڈنگ کرنے والوں کے کوائف جمع

118

لاہور(نمائندہ جسارت) قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اوردھرنے کے لیے فنڈنگ کرنے والوں کے کوائف جمع کرنے شروع کردیے ہیں جبکہ پنجاب میں جے یوآئی (ایف) کے اہم رہنماؤں کی نقل وحرکت پرنظربھی رکھی جارہی ہے۔جمعیت علما اسلام (ف) کے آزادی مارچ اوردھرنے کے لیے پارٹی کارکنوں سمیت تاجروں اورکاروباری طبقے سے بھی فنڈزلیے جارہے ہیں۔ حساس اداروں سمیت دیگرمحکموں نے آزادی مارچ اوردھرنے کے لئے بڑے پیمانے پرفنڈنگ کرنیوالے تاجروں ، کاروباری شخصیات کا سراغ لگانا شروع کردیا ہے۔ حساس اداروں کوشبہ ہے کہ پنجاب میں چند بڑی کاروباری شخصیات جو مسلک کی بنیاد پر مولانا فضل الرحمان کے حامی ہیں ان کی طرف سے آزادی مارچ اوردھرنے کے لئے لاکھوں روپے کے فنڈزاوردیگرسہولیات فراہم کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ کئی تاجراوربڑے دکاندار بھی آزادی مارچ اوردھرنے کے لئے فنڈنگ کررہے ہیں لیکن ان کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہیں جب کہ جے یوآئی (ف) بھی ان کے نام ظاہرنہیں کررہی ہے۔ذرائع کے مطابق اگرحکومتی کمیٹی اورمولانا فضل الرحمن کے درمیان مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے اورمولانا فضل الرحمن مارچ اوردھرنے کی ضد پرقائم رہتے ہیں تو پھرجماعت کے اہم رہنماؤں کو حراست میں لے کرنظربند کیا جاسکتا ہے۔حساس ادارے اس بات کا بھی سراغ لگارہے ہیں کہ تاجروں ، کاروباری شخصیات اورجے یوآئی (ف) کے اہم رہنماؤں کے علاوہ مسلم لیگ (ن) ،پیپلزپارٹی سمیت مولانا فضل الرحمان کی ہم نوا دیگرجماعتوں کی طرف سے مارچ اوردھرنے کی لئے کس قدر فنڈنگ کی جاتی ہے اوروسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔جمعیت علما اسلام (ف) پارٹی کارکنوں ، دینی مدارس کے طلبا اورعام شہریوں سے ختم نبوت آزادی مارچ کے نام پرفنڈزجمع کررہی ہے۔ اس مقصد کے لئے باقاعدہ کوپن چھپوائے گئے تھے اوریہ سلسلہ تقریبا دوماہ پہلے شروع ہواتھا جوابھی تک جاری ہے۔ جے یوآئی (ف) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مارچ اوردھرنے کے لئے کسی سے غیرقانونی فنڈنگ نہیں لی جارہی ہے ، ہرضلع کے کارکن اورقافلے اپنے اخراجات خودبرداشت کرتے ہوئے مارچ اوردھرنے میں شریک ہوں گے،مرکزی پروگرام کے اخراجات جمعیت اوراس کی ذمہ داران خود کرررہے ہیں۔علاوہ ازیںجے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے منصوبہ بندی شروع کردی۔ ذرائع کے مطابق آرٹیکل 245 کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج طلب کی جا سکتی ہے۔ذرائع کے مطابق امن و امان کی صورتحال کے پیش نظرسرکاری عمارتوں اور اہم تنصیبات پر فوج تعینات کرنے پر غوربھی کیا جارہا ہے جب کہ فوج طلبی کا حتمی فیصلہ وزارت داخلہ کرے گی۔