آئی ایم ایف کے حالیہ فرمودات

518

 

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری

رواں سال 3 جولائی کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کی اسکیم کے تحت 6 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا تھا اور اس کے ساتھ ایک ارب ڈالر فوراً پاکستان کو ادا کردیے تھے۔ اس پر حکومت کی جانب سے بہت اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا تھا کہ گویا ہم نے ایک کارنامہ انجام دیا ہے اور دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہوگئے ہیں جہاں آئی ایم ایف کا پروگرام چل رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے نمائندے جیری رائس (Gery Rice) نے اپنے ٹویٹ میں یہ فرمایا تھا کہ اس تین سالہ قرضہ کا مقصد پاکستانی معیشت میں استحکام لانا اور لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر حفیظ شیخ نے اس قرضے پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ خبر دی تھی کہ اس پروگرام سے پاکستان میں معاشی اصلاحات کے پروگرام کو پورا کرنے میں مدد ملے گی اور معیشت میں ناہمواریاں کم ہوجائیں گی۔
اب جب کہ اس پروگرام کو چلتے ہوئے ساڑھے 3 ماہ ہوچکے ہیں تو آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کے بارے میں خوفناک رپورٹ دے رہا ہے کہ معاشی ترقی کی شرح رواں سال 2.4 فی صد رہے گی۔ ترقی کی یہ شرح ترقی پزیر ممالک میں سب سے کم ہے۔ روزگار کے مواقعے پیدا کرنے اور بیروزگاری ختم کرنے میں معاشی ترقی کی شرح اہم کردار ادا کرتی ہے، جس ملک میں آبادی میں اضافے کی شرح ڈیڑھ سے دو فی صد کے درمیان ہو اور معاشی ترقی کی شرح 2.4 فی صد ہونے کا مطلب صاف یہ ہے کہ بیروزگاری بدستور اسی طرح رہے گی اور اسی کے ساتھ جب حکومت کی طرف سے 400 محکمے ختم کرنے کی باتیں ہورہی ہوں اور وزرا یہ اعلان کررہے ہوں کہ عوام نوکریوں کے لیے حکومت کی طرف نہ دیکھیں۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حکومت بے روزگاری ختم کرنے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ اسے عوام کے مسائل سے کوئی سروکار ہے۔
آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں دوسری بات یہ بتائی ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 13 فی صد رہے گی۔ یعنی جو مہنگائی اس وقت ہے اس میں تقریباً 2 فی صد اضافہ ہوگا۔ اس سے پہلے حکومت کی جانب سے عوام کو یہ خوشخبریاں سنائی جارہی تھیں کہ جنوری کے بعد مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوجائے گی لیکن آئی ایم ایف نے اس خوش گمانی کا پردہ چاک کردیا۔ دوسری طرف حکومتی ایوانوں میں اس بات پر خوشیاں منائی جارہی ہیں کہ تجارتی خسارے میں کمی آگئی ہے، ایکسپورٹ میں اضافہ اور امپورٹ میں کمی آئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت نے اس محاذ پر کامیابیاں حاصل کی ہیں، حکومت کے سامنے دو قسم کے خساروں کا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا جس کے باعث معیشت شدید عدم استحکام کا شکار تھی، ایک تجارتی خسارہ اور دوسرا مالیاتی خسارہ۔ مالیاتی خسارہ کے معاملے میں تو کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوسکی لیکن تجارتی خسارہ کم ہو گیا ہے جس سے روپے کی قدر میں کچھ استحکام آیا ہے، اب اگر یہ استحکام برقرار رہتا ہے تو حالات بہتری کی جانب جائیں گے، اس وقت ایک دوسرا محاذ حکومت اور تاجروں اور صنعت کاروں میں کشیدگی ہے، حکومت اسی سال ٹیکس وصولی میں 30 فی صد اضافہ کرنا چاہتی ہے اور ٹیکس وصولی کو پانچ ہزار ارب روپے تک لے جانا چاہتی ہے، اس کے لیے معاشی سرگرمیوں کو دستاویزی بنانے کی مہم جاری ہے۔ منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے اسٹیٹ بینک سخت قوانین بنارہا ہے، باقی رہی سہی کسر نیب پوری کررہا ہے، یہ تمام ارادے غلط نہیں لیکن جس ملک میں لوگوں کی نفسیات میں ٹیکس چوری شامل ہو اور ٹیکس نہ دینے کے دس طریقے وہ جانتے ہوں وہ آہستہ آہستہ ہی ٹیکس کی ادائیگی کے راستے پر آسکتے ہیں، اگر آپ جلد بازی اور سختی کریں گے تو وہی نتیجہ نکلے گا جو سامنے آرہا ہے۔ اس معاملے میں حکومت کو دانائی اور حکمت سے کام لینا ہوگا ورنہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا بلکہ حکومت بھی ہاتھ سے جائے گی۔