افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

152

مضامین سورہ الحدید
ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی راہ خدا میں مال صرف کرنے سے پہلو تہی نہ کرے۔ ایسا کرنا صرف ایمان ہی کے منافی نہیں ہے بلکہ حقیقت کے اعتبار سے بھی غلط ہے۔ کیونکہ یہ مال در اصل خدا ہی کا مال ہے جس پر تم کو خلیفے کی حیثیت سے تصرف کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ کل یہی مال دوسروں کے پاس تھا، آج تمہارے پاس ہے، اور کل کسی اور کے پاس چلا جائے گا۔ آخر کار اسے خدا ہی کے پاس رہ جانا ہے جو کائنات کی ہر چیز کا وارث ہے۔ تمہارے کام اس مال کا کوئی حصہ اگر آسکتا ہے تو صرف وہ جسے تم اپنے زمانہ تصرف میں خدا کے کام پر لگا دو۔
٭…٭…٭
خدا کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینا اگرچہ ہر حال میں قابل قدر ہے ، مگر ان قربانیوں کی قیمت مواقع کی نزاکت کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے۔ ایک موقع وہ ہوتا ہے جب کفر کی طاقت بڑی زبردست ہو اور ہر وقت یہ خطرہ ہو کہ کہیں اسلام اس کے مقابلے میں مغلوب نہ ہو جائے۔ دوسرا موقع وہ ہوتا ہے جب کفر و اسلام کی کشمکش میں اسلام کی طاقت کا پلڑا بھاری ہو جائے اور ایمان کو دشمنان حق کے مقابلے میں فتح نصیب ہو رہی ہو۔ یہ دونوں حالتیں اپنی اہمیت کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔ اس لیے جو قربانیاں ان مختلف حالتوں میں دی جائیں وہ بھی اپنی قیمت میں برابر نہیں ہیں۔ جو لوگ اسلام کے ضعف کی حالت میں اس کو سربلند کرنے کے لیے جانیں لڑائیں اور مال صرف کریں ان کے درجہ کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو اسلام کے غلبے کی حالت میں اس کو مزید فروغ دینے کے لیے جان و مال قربان کریں۔
٭…٭…٭
راہ حق میں جو مال بھی صرف کیا جائے وہ اللہ کے ذمے قرض ہے، اور اللہ اسے نہ صرف یہ کہ کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس دے گا بلکہ اپنی طرف سے مزید اجر بھی عنایت فرمائے گا۔
٭…٭…٭
آخرت میں نور انہی اہل ایمان کو نصیب ہوگا جنہوں نے راہ خدا میں اپنا مال خرچ کیا ہو۔ رہے وہ منافق جو دنیا میں اپنے ہی مفاد کو دیکھتے رہے اور جنہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں رہی کہ حق غالب ہوتا ہے یا باطل، وہ خواہ دنیا کی اس زندگی میں مومنوں کے ساتھ ملے جلے رہے ہوں ، مگر آخرت میں ان کو مومنوں سے الگ کر دیا جائے گا، نور سے وہ محروم ہوں گے اور ان کا حشر کافروں کے ساتھ ہوگا۔
٭…٭…٭
مسلمانوں کو ان اہل کتاب کی طرح نہ ہو جاتا چاہیے جن کی عمریں دنیا پرستی میں بیت گئی ہیں اور جن کے دل زمانہ دراز کی غفلتوں سے پتھر ہوگئے ہیں۔ وہ مومن ہی کیا جس کا دل خدا کے ذکر سے نہ پگھلے اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے نہ جھکے۔
٭…٭…٭
اللہ کے نزدیک صدیق اور شہید صرف وہ اہل ایمان ہیں جو اپنا مال کسی جذبہ ریا کے بغیر صدق دل سے اس کی راہ میں صرف کرتے ہیں۔
٭…٭…٭
دنیا کی زندگی محض چند روز کی بہار اور ایک متاع غرور ہے۔ یہاں کا کھیل کود، یہاں کی دلچسپیاں، یہاں کی آرائش و زیبائش، یہاں کی بڑائیوں پر فخر، اور یہاں کا دھن و دولت، جس میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوششیں کرتے ہیں، سب کچھ ناپائیدار ہے۔ اس کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جو پہلے سر سبز ہوتی ہے، پھر زرد پڑ جاتی ہے اور آخرکار ٹھیس بن کر رہ جاتی ہے۔ پائیدار زندگی دراصل آخرت کی زندگی ہے جہاں بڑے نتائج نکلنے والے ہیں۔ تمہیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنی ہے تو یہ کوشش جنت کی طرف دوڑنے میں صرف کرو۔
٭…٭…٭
دنیا میں راحت اور مصیبت جو بھی آتی ہے اللہ کے پہلے ہوئے فیصلے کے مطابق آتی ہے۔ مومن کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ مصیبت آئے تو ہمت نہ ہار بیٹھے، اور راحت آئے تو اترا نہ جائے۔ یہ تو ایک منافق اور کافر کا کردار ہے کہ اللہ اس کو نعمت بخشے تو وہ اپنی جگہ پھول جائے، فخر جتانے لگے، اور اسی نعمت دینے والے خدا کے کام میں خرچ کرتے ہوئے خود بھی تنگ دلی دکھائے اور دوسروں کو بھی بخل کرنے کا مشورہ دے۔
(موضوع و مضمون، سورہ الحدید، تفہیم القرآن)