عورت اور گھر

247

مولانا جلال الدین عمری

اسلام کے نزدیک عورت اور مرد کے دائرہ کار جدا جدا ہیں۔ عورت کا میدان عمل اس کا گھر ہے اور گھر سے باہر کی دنیا مرد کی آماجگاہ ہے۔ چنانچہ رسولِ اکرمؐ کی ازواجِ مطہرات کو قرآن نے ہدایت کی۔ اور یہی ہدایت ان تمام عورتوں کے لیے ہے جو خدا اور رسول پر ایمان رکھتی ہیں۔
اسلام نے دو وجوہ سے عورت اور مرد کے دائرہ کار ایک دوسرے سے الگ رکھے ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اس سے دونوں کی عفت و عصمت کی حفاظت ہوتی ہے۔
جب بھی دونوں ایک میدان میں کام کریں گے با عفت زندگی گزارنا ان کے لیے دشوار ہوگا۔ اگر عورت اور مرد مل جل کر درسگاہوں میں تعلیم حاصل کریں، پارکوں اور میدانوں میں کھیل کود اور تفریح میں حصہ لیں، بازاروں میں بے تکلفی اور آزادی کے ساتھ لین دین اور کاروبار کریں اور خلوت وجلوت میں بغیر کسی روک ٹوک اور پابندی کے ملتے جلتے رہیں اور پھر یہ سلسلہ دو ایک دن نہیں بلکہ سالہا سال تک دراز ہوتا جائے اور اسی میں بچپن سے لے کر جوانی اور جوانی سے لے کر بڑھاپے تک سارے مراحل طے ہوتے رہیں تو ان کے جنسی جذبات کا بھڑکنا اور بے قابو ہونا یقینی ہے۔
اس کے بعد وہ جنسی بے راہ روی کا آسانی سے شکار ہو سکتے ہیں۔
موجودہ دور میں جہاں کہیں اختلاط مرد و زن کی اجازت دی گئی وہاں اس کا بڑا بھیانک تجربہ ہوا ہے۔ عفت و عصمت اجڑ گئی اور آوارگی وبائے عام کی طرح پھیل گئی ہے۔ اب اس کی اصلاح بھی اتنی دشوار ہو گئی ہے کہ اسے ایک ایسی سماجی برائی کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا ہے جس سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہے اور اس کے نتائج بد کو بھی چار و ناچار برداشت کیا جا رہا ہے۔
عفت و عصمت بظاہر ایک اخلاقی قدر ہے لیکن اس سے پورے معاشرے کا رخ متعین ہوتا ہے جس معاشرے میں عفت و عصمت کی کوئی اہمیت نہ ہو وہ آدمی کو ہر طرف سے کھینچ کر زنا اور بدکاری کی طرف لے جاتا ہے اور ایک خاص قسم کا کلچر، تہذیب، معاشرت، ادب اور اخلاق پیدا کرتا ہے اس کی ایک ایک چیز انسان کے جنسی جذبات میں آگ لگاتی اور انہیں بھڑکاتی رہتی ہے۔ اس کے خلاف جو معاشرہ عفت و عصمت کی قدر و قیمت اور عظمت محسوس کرے اس کی تعمیر ایک دوسرے ہی نہج پر ہوتی ہے۔ اس کے ہر عمل سے شرم و حیا اور کردار کی پاکیزگی کا اظہار ہوتا ہے اور ہر طرف تقویٰ و طہارت کی فضا چھائی رہتی ہے۔
اسلام عفت و عصمت کے معاملے میں بڑا حساس واقع ہوا ہے۔ اس نے عورت اور مرد کے آزادانہ میل جول اور اختلاط سے سختی سے منع کیا ہے، وہ اس بات کو غلط سمجھتا ہے کہ عورت اور مرد ایک ساتھ مل کر کام کریں خود کو ایسی آزمائش میں ڈال دیں کہ اس سے نکلنا ان کے لیے مشکل ہو جائے۔
اس نے زنا اور بد کاری کے ارتکاب ہی سے نہیں بلکہ اس کے قریب جانے سے بھی منع کیا ہے۔ فرمایا؛ ترجمہ: زنا کے قریب مت پھٹکو۔ اس لیے کہ وہ بے حیائی کا کام ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔ (بنی اسرائیل: 32)
عورت اور مرد کے لیے دو الگ میدانِ کار تجویز کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دونوں کی قوتیں اور صلاحیتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت جسمانی طور پر مرد سے کمزور ہے اور زیادہ محنت و مشقت برداشت نہیں کر سکتی۔ پھر اس کے ساتھ ایسے عوارض بھی لگے ہوئے ہیں جو اسے مسلسل اور سخت محنت سے روکتے ہیں اس کی جوانی کا آغاز ہی ماہواری سے ہوتا ہے اور جب تک وہ بڑھاپے کی حدود میں داخل نہ ہو جائے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اس کے علاوہ اسے حمل و رضاعت کے سخت اور جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ ساری کیفیات اس کی صحت، وقتِ کار اور مزاج پر اثر انداز ہوتی ہیں اور لگاتار جدوجہد اور محنت کی راہ میں مانع ہیں۔ اس لیے فطرت کا تقاضا اور عدل و انصاف سے قریب تر بات یہی ہے کہ عورت پر اس سے کچھ کم بوجھ ڈالا جائے جتنا بوجھ مرد پر ڈالا جاتا ہے۔ محنت و مشقت کے کام مرد کے سپرد کیے جائیں اور عورت کو ان کاموں میں لگایا جائے جو زیادہ محنت طلب نہیں ہیں۔ اسلام نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ عورت گھر سنبھالے اور مرد باہر کی خدمات انجام دے۔
عورت کا مزاج، رجحان اور نفسیات بھی اسی کا تقاضا کرتے ہیں۔ عورت کے اندر محبت، دلداری، ہمدردی و غم خواری، ایثار و قربانی، صبر و تحمل، حلم و بردباری اور خدمت کے جذبات مرد سے زیادہ ہیں، ان کی وجہ سے وہ اپنے ماحول کو مسرت اور خوشی، راحت اور سکون دلجوئی اور محبت سے بھر سکتی ہے۔ لیکن زندگی کے شوائد اور مشکلات کا سامنا کرنے اور ہر طرح کے نشیب و فراز میں ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی میں جفا کشی، عزم و ہمت، پامردی اور شجاعت جیسی صفات پائی جائیں۔ یہ صفات مرد میں زیادہ ہیں۔ گھر اور خاندان نسبتاً پر سکون ماحول فراہم کرتے ہیں۔ اس میں عورت کی خوبیاں زیادہ نکھر کر سامنے آسکتی ہیں اور ان سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ زندگی کے پیچیدہ اور دشوار مسائل کا سامنا مرد کر سکتا ہے۔ اس لیے فطری طور پر اسی کو ان سے عہدہ بر آہونا بھی چاہیے۔