ہماری اخلاقی حالت

272

ابوالحسن علی ندوی

قرآن مجید میں امت مسلمہ کو خیر امت کہا گیا ہے، اور جہاں یہ بات کہی گئی ہے وہاں امت کو مخاطب کر کے اس کے تین خصوصی اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1 ۔ایک یہ کہ تم لو گ بھلائی کا حکم دیتے ہو۔2 ۔دوسرے یہ کہ برا ئی کو روکتے ہو۔ 3۔اور تیسرے یہ کہ اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ امت کسی مخصوص رنگ اور نسل کی بنا پر یا محض کسی نبی یا بزرگ کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر خیر امت نہیں ہوگئی ہے، بلکہ یہ اس بنا پر خیر امت ہے کہ بھلائی اور نیکی کے کاموں سے اسے اس درجہ گہرا تعلق ہے کہ ان کاموں پر نہ صرف یہ کہ خود عمل پیرا ہے بلکہ ساری دنیا کو اسی کی دعوت دے رہی ہے اور اس کی طرف بلا رہی ہے۔ اسی طرح برائی کے کاموں سے اسے اس درجہ نفرت اور پرہیز ہے کہ نہ صرف خود اس سے کنارہ کش ہے بلکہ ساری دنیا کو اس سے روکنے اور باز رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پھر اس ساری تگ و دو میں وہ اس قدر مخلص ہے کہ اس کے پیچھے کوئی ذاتی مفاد، کوئی اپنی مصلحت اور کوئی دنیاوی غرض کار فرما نہیں ہے بلکہ وہ اپنے ایمان کے تقاضے کی بنا پر ایسا کرتی ہے اور محض اللہ کی رضا اور خوشنودی چاہتی ہے۔
امت مسلمہ کے اس منصب و مقام اور اس کے کردار و عمل کے اس قرآنی نقشے اور خاکے کو سامنے رکھ کر موجودہ حالات سے اس کا تقابل کیا جائے تو ایک عجیب طرح کا تضاد نظر آئے گا۔
آپ کسی شہر کے مسلمان محلے یا کسی علاقے کی مسلم بستی میں تشریف لے جائیں۔ بے فکری، الھڑپن اور دیوانگی و آوارگی کے رنگ میں گھومتے ہوئے بہت سے جوانوں سے آپ کی ملاقات ہو جائے گی۔ گلی کوچوں میں نالیوں کے اندر اور باہر اور سڑک کے کنارے آپ کو جگہ جگہ پاخانے، پیشاب، گندگی اور کوڑے کرکٹ کے کریہہ منظر نظر آئیں گے۔ بلکہ آپ کسی شہر کے مسلم اور غیر مسلم محلوں سے واقف نہیں ہیں تو ان گندگیوں کا ڈھیر، گلیوں کی تنگی اور مکانوں کی خستگی دیکھ آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں کا محلہ ہے۔ دیہاتوں میں آپ دیکھیں گے کہ بچے اور بسا اوقات بڑے بھی اپنے کام ودہن کی لذت کے لیے اور کبھی کبھی اپنی اور اپنے اہل خانہ کی روزی حاصل کرنے کے لیے کسی کے کھیت پر حملہ آور ہیں اور اگر اسی دوران کھیت کا مالک نمودار ہوجائے تو آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ اس کے منہ سے گالیوں کے فوارے ابل رہے ہیں اسی طرح اگر خدانخواستہ دو شخصوں میں جھگڑا اور تکرار ہو رہا ہو تو آپ بڑی آسانی سے گالیوں کے ٹورنامنٹ کا دلخراش منظر دیکھ سکتے ہیں۔
ٹرین میں اگر آپ کے گرد و پیش بیٹھے ہوئے چند بے فکرے نوجوان کسی لایعنی موضوع پر گپیں ہانک رہے ہوں اور دوران گفتگو کبھی اشاروں میں اور کبھی صراحۃً اپنی عیاشی و بدکاری کی داستانیں چھیڑ رہے ہوں تو آپ سمجھ لیجیے کہ یہ مسلمان ہیں۔
بزرگوں سے لے کر خُردوں تک، اونچوں سے لے کر نیچوں تک اور دینداروں سے لے کر بے دینوں تک آپ کسی مجلس میں بیٹھ جائیے، چند ہی لمحوں میں کسی مسلم بھائی کے مردار گوشت کی خوراک آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائے گی۔ برائیوں اور عیوب کا دفتر کھل جائے گا اور ان پر تبصرے کے لیے زبان قینچی کی طرح رواں ہوگی۔
کسی بھی شہر میں سنیما ہال کی کھڑکیوں کے گرد وپیش جوانوں کی بھیڑ بھاڑ میں برقعہ پوش خواتین کی خاصی بڑی تعداد کو دھکے کھاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ بلکہ اب تو جو بے پردہ خواتین نظر آئیں، ان کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتاکہ وہ غیر مسلم ہی ہیں۔
آپ کسی دکان پر اس جذبے کے تحت سامان خریدنے جائیں کہ یہ بھی اپنے ایک بھائی کی اعانت اور مدد کا ذریعہ ہے تو کچھ عجب نہیں کہ آپ کو دوسری دکانوں کی بہ نسبت سامان کچھ مہنگا ہی ملے اور خدا اور قرآن کی قسم کھا کر یہ احسان بھی جتلا دیا جائے کہ آپ کو اپنا بھائی سمجھ کر آپ کے ساتھ خاص رعایت کی گئی ہے۔ چند پیسوں کے لیے جھوٹ بولنا اور ایمان بیچنا کتنا آسان ہے اس کا اندازہ آپ بہت سے مسلم دکانداروں سے ایک ادنیٰ سے سامان کی خرید و فروخت کے دوران کر سکتے ہیں۔
آپ اگر مزدور، دست کار یا صنعت کار ہیں تو آپ جانتے ہوں گے کہ آپ کے مالکوں اور ساہوکاروں نے آپ کی گاڑھی کمائی سے کچھ نہ کچھ نچوڑ کھانے کے لیے راستے بنا رکھے ہیں۔ اور آپ کا سامان خرید لینے کے بعد کس طرح مہینوں کی مہینوں آپ کے مال کی قیمت روکے رکھتے ہیں اور آپ کو دوڑاتے پھرتے ہیں۔
اور اگر آپ صاحب مال ہیں اور دست کاروں اور صنعت کاروں کے ہاتھ اپنا مال تیار کراتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کاریگر اور مزدور اپنی ڈیوٹی کی انجام دہی میں کتنے کوتاہ اور غیر ذمے دار واقع ہوئے ہیں اور آپ کا مال خورد برد کرنے میں انھیں کتنی مہارت حاصل ہے۔
آپ اگر عالم ہیں اور کسی بڑے مالدار آدمی کے ساتھ کچھ دیر کے لیے بیٹھنے کا اتفاق ہوگیا تو غالباً سود کا مسئلہ چھڑا ہوگا، اور سودی لین دین کی ضرورت اور اس معاملے میں مجبوریوں کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہوگا کہ گویا سود لیے دیے بغیر زندگی کے راستے مسدود اور ترقی کے تمام امکانات کے دروازے بند ہیں۔ میں نے کبھی کسی غریب یامتوسط طبقے کے آدمی کو نہیں سنا کہ سودی لین دین کی ضرورت کا اظہار کیا ہو۔ لیکن جن لوگوں کے پاس بدہضمی کی حد تک دولت کا انبار ہو، ان کی گفتگو سے ایسا لگتا تھا کہ وہ سود کے بغیر روزی کے سارے دروازے بند سمجھتے ہیں۔
ظاہر ہے اس صورت میں تبدیلی اور انقلاب لانے کی کوشش کا اولین ذمے دار اس امت کا وہ طبقہ ہے جسے انبیا کا وارث کہا جاتا ہے مگر اس طبقے کی کوششوں کا جو رخ ہے وہ بڑا مایوس کن ہے۔ ان وارثین انبیا میں ایک بڑا گروہ ان لوگوں کا ہے جو عام مسلمانوں سے ربط تو ضرور رکھتے ہیں مگر ان کے تعلق کی بنیاد اصلاح و تبلیغ نہیں بلکہ اپنے جسم و جان اور تن ولباس کی ضرورتوں کی تکمیل ہے۔ یہ لوگ تبدیلی کا کوئی عملی قدم اٹھانے سے تو یکسر معذور ہیں، لیکن ان کی زبان سے نکلی ہوئی آواز کی جو نوعیت ہوسکتی ہے اور وہ جہاں تک پہنچ سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں، البتہ ان وارثین انبیا کا ایک گروہ ایسا ضرور ہے جسے عقیدت و محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی آواز کان کے پردوں سے آگے جا سکتی ہے۔ مگر ان میں سے کھوکھلے کردار کے لوگوں کو چھانٹ دینے کے بعد بھی۔ مشکل یہ ہے کہ یہ لوگ آسمان کی بلندیوں پر رہتے ہیں اور انھیں جن سے خطاب کرنا ہے وہ پستیوں کے مکین ہیں۔ ان کی تقریریں عربی میں ہوتی ہیں اور ان کے مخاطب معیاری اردو بھی نہیں سمجھتے۔ ان کا قیام عالمگیر پیمانے کے ہوٹلوں میں ہوتا ہے۔ اور ان سے استفادے کے محتاج لوگوں کو جھونپڑی بھی نصیب نہیں۔ یہ اسلام کے علمبردار مسلم حکمرانوں کے زیر سایہ چلنے والی یونیورسٹییوں میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں کو خطاب کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ اور اس اونچی سوسائٹی کے لوگوں سے شاعرانہ اداؤں کے ساتھ الداعی الاسلامی الکبیر کے القاب و خطاب سے پکارے جانے یا نوازے جانے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ان ساحل نشینوں کے بجائے کاروبار زندگی کے طوفان سے ٹکرانے اور اس کے تھپیڑے کھانے والوں کو ان داعیان اسلام کی حکمت و دانائی کے جواہر پاروں کی ضرورت ہے غرض شکار کہیں ہے اور تیر کہیں اور چلایا جا رہا ہے اور اس کا جو نتیجہ ہے اور جو آئندہ ہو سکتا ہے وہ کسی تبصرے اور تجزیے کا محتاج نہیں۔ پس عرض ہے کہ
تو ہما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی